تحریر: بنت عطاء
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے زندگی کے تمام مراحل پر یہ ہماری رہنمائی
کرتا ہے خواہ چھوٹی سے چھوٹی بات ہو یا ہر بڑی سے بڑی بات اسلام ہر بات کی
ہمیں تعلیم دیتا ہے۔ آپس میں میل جول اور لوگوں سے معاملات وغیرہ کیسے
رکھنے ہیں اس معاملے میں بھی اسلام ہماری تربیت کرتا ہے کہ ہم کیسے ایک
بہتر معاشرہ تشکیل دیں۔ ایک حدیث کا مفہو م ہے کہ ’’لوگوں کو دوست بناؤ
تاکہ آپس میں خوشگوار فضا قائم ہو، اجنبیت ختم ہو، سب مسلمان ایک خاندان کی
طرح رہیں‘‘مگر پھر سوال یہ بنتا ہے کہ کس طرح کے لوگوں کو اپنا دوست
بنائیں۔کن سے دور رہیں تو اس سلسلے میں بھی اسلام کی تعلیمات موجود ہیں
چنانچہ فرمایا ’’دوست اس کو بناؤ جو مومن ہو‘‘۔ یہاں ہمارے لیے ایک ضابطہ
بیان کیا گیا تاکہ دشمنان اسلام سے ایسی دوستی یا ایسا تعلق اختیار نہ کیا
جائے جو خود اپنے دین کے لیے مضر ثابت ہو۔
یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ صحبت کا اثر جلدی قبول کرتا ہے اچھے دوست ہماری
شخصیت پر الگ طرح سے اثر انداذ ہوتے ہیں برے دوست الگ طرح۔ حدیث مبارکہ ہے
’’اچھا دوست مشک والے کی طرح ہے تمہیں کچھ اور دے نہ دے خوشبو ضرور دے گا
اور برا دوست بھٹی والے کی طرح ہے کہ اس کا ساتھ تمہیں کالک ہی دے گا‘‘۔ اس
طرح ایک جگہ فرمایا ،’’برے ساتھی سے تنہائی بہتر ہے اور اچھا ساتھی تنہائی
سے بہتر ہے‘‘۔ ایک جگہ فرمایا، ’’انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے‘‘ (الترمذی)
یعنی جس طرح کے دوستوں میں اس کا اٹھنا بیٹھنا ہوگا اس کو بھی ان جیسا
سمجھا جائے گا اور قیامت میں حشر بھی انہی کے ساتھ ہوگا چنانچہ دوست بہت
سوچ سمجھ کر بنائیں کسی سے بھی دوستی کرتے وقت یہ چند باتیں ضرور دیکھیں۔
اب وہ دوست دین دار ہو کیوں کہ اس کے برعکس اخروی زندگی کے لیے مضر ثابت
ہوگا۔ عقلمند ہوکیوں کہ بیوقوف کی دوستی دنیاوی اعتبار سے مضر ہے۔ جو مصیبت
میں کام آئے، جس کی دوستی سے علم و عمل میں اضافہ ہو۔ جو آپ کو دعاؤں میں
یاد رکھے۔جس کا ساتھ اﷲ اور آخرت کی یاد دلاتا ہو۔ اگر ان باتوں کی رعایت
رکھ کر ہم اپنا حلقہ احباب وسیع کریں تو ان شاء اﷲ دنیا بھی ہماری ہوگی اور
آخرت بھی ہماری۔
|