کاغذی چہرے ، بے رنگ بے بوافکار اور روشنی کی شمع !

خبروں پر نظر دوڑائی ، کوئی خبر پرکشش نظر نہیں آئی ، کسی خبر میں کوئی اطلاع نہیں تھی ، بس یہ بتایا گیا تھا کہ دنیا آگے جار ہی ہے ، کام اچھے ہو رہے ہیں ، صبر کرو، سب ٹھیک ہو جائے گا، بے رنگ ، بے بو خبریں، جن میں نہ کوئی امید نظر آئی،نہ خبریت،نہ رہنمائی ۔سوچا ہمارے ملک کے بڑے صحافتی/کمرشل اداروں سے منسلک صحافت اور عقل و دانش کے بڑے نام اس بے کیف موسم میں نخلستان یا ریگستان کا منظر پیش کر رہے ہوں گے۔لیکن نہیں ،اتنا افسوس تو بے ضرر،بے رنگ،بے بو خبریں دیکھ کر نہیں ہوا ،جتنا صدمہ قلم کاروں کے حسن انتخاب ،بے رنگ ،بے بو تحریریں دیکھ کر ہوا۔ کیا ہماری دانش بھی کاغذی چہروں کا روپ دھار چکی ہے؟

جب جھوٹ ،غلط بیانی وقت کی اہم ضرورت بن جائے تو سچائی کی سختیاں اٹھانا کون پسند کرے گا؟برصغیر کی چند سو سال کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو غدار قرار دیئے گئے افراد کے خاندانوں پر اللہ کا خصوصی فضل و کرم نظر آتا ہے جبکہ جنہیں برصغیر کی ہماری تاریخ میں ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا رہا،ان کے خاندان نشان عبرت بن گئے۔انہیں نہ کوئی جانتا ہے اور نہ ہی جاننا پسند کرتا ہے۔لگتا ہے کہ تاریخ دان سے کوئی غلطی ہوگئی کہ جن خاندانوں پر اللہ تعالی کا مسلسل خصوصی فضل و کرم چلا آ رہا ہے،انہیں ماضی کے تاریخ دانوں نے غدار لکھ دیا اور جو اللہ کی بے پرواہی کا نشانہ بنے انہیں ہیرو لکھ دیا۔

آج جو مذہب کے حوالے سے سیاسی ،سماجی حوالوں سے سچ بولتا ہے،وہ پہلے ہی مرحلے میں غالب اکثریتی آبادی کی توجہ سے محروم ہو جاتا ہے کہ ہمارے ملک میں جہل ہی عقلمندی کا معیار قرار پاتی ہے۔پاکستان کے عالمی شہرت یافتہ ممتاز عالم، دانشور جاوید احمد غامدی کی صورت روشنی کی شمع کا ظلمت کی آندھیوں میں جلنا، عوام کو رہنمائی فراہم کرنا،آج کی انحطاط پذیری کے چلن میں اللہ تعالی کا خصوصی فضل و کرم محسوس ہوتا ہے۔ پاکستان کے بنیادی مسائل کو ہر کوئی اپنی نظر سے دیکھتا ہے ، تاہم ہر دانش کی طرف سے اس کا احاطہ ایک جیسا ہی نظر آتا ہے۔ جاوید غامدی نے پاکستان کے بنیادی مسئلے کا جس طور احاطہ کرتے ہوئے اس کا بیان کیا ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔

جاوید غامدی صاحب کا کہنا ہے کہ '' کیا برطانیہ عظمی کا ہم نے انتخاب کیا تھا کہ وہ آئے اور ہم پر حاکمیت کرے،ہندوستان پر حکومت کرے،اسی طرح فتوحات کے اصول کے اوپریہ لوگ آئے اور قابض ہو گئے۔انہوں نے یہاں آ کر مقامی فوجیں بنائیں،پھر جب چھوڑ کر گئے تو کیا چھوڑ کر گئے،یعنی بادشاہت چلی گئی،انگلستان ہندوستان سے رخصت ہو ا تو بادشاہ سلامت کا نمائندہ رخصت ہوا،اس دن ہم محکوم ہی تھے،ہمارے اوپر افواج ہی حکومت کر رہی تھی،وہ ساری کی ساری افواج انگریز نہیں تھی،یہیں سے بھرتی کی گئی تھی،تو جن کو حکومت کرنا سکھایا گیا تھا،انہوں نے جلد ہی حکومت سنبھالنے کی کوشش کی ۔ ہندوستان میں لیڈر شپ بہت مضبوط ہو چکی تھی، روایات بہت بہتر ہو چکی تھیں، بحیثیت مجموعی قوم بھی تربیت پا چکی تھی اور جو جمہوری نظام چلانے کی بڑی ضرورت ہوتی ہے، ایک اچھی منظم سیاسی جماعت ، کانگریس یہ حیثیت اختیار کر چکی تھی۔اس لئے وہاں بندوق والوں کو کامیابی نہیں ہوئی ۔ پاکستان میں انہوں نے قبضہ کر لیا۔اس قبضے کی سکیم پہلے دن سے ہی بننا شروع ہو گئی تھی۔اگر آپ تاریخ کو پڑہیں تو قائد اعظم کے ہوتے ہوئے ،ہماری بدقسمتی بھی ہوئی کہ اگر وہ کچھ دیر رہتے ،آئین بن جاتا ،ان کے ذریعے سے نافذ ہو جاتا،ان کے کچھ جانشین معاملات کو سنبھال لیتے تو شاید بچ جاتے۔پہلے تو بیوروکریسی کا اور بندوق والوں کا گٹھ جوڑ ہوا۔اسی کو ہم مقتدرہ،اسٹیبلشمنٹ کے لفظ سے ادا کرتے ہیں تاکہ کم سے کم بندوق سے محفوظ رہیں،اچھا لفظ ہم نے ایجاد کر لیا ہے۔اب اس کے بعد یہ طے ہے کہ ہم براہ راست حکومت کریں گے یابالواسطہ حکومت کریں گے۔حکومتیں بظاہر جمہوری چہرے کے ساتھ ہماری مرضی سے بننی چاہئیں ہماری مرضی سے گزرنی چاہئیں تو یہ کشمکش یہاں جاری ہے۔بندوق یہاں لوگوں کی حکومت کو قبول کرنے کو تیار نہیں،بادشاہت نے اس کو وجود بخشا تھا اور وہ اب بھی اسی طریقے سے سوچتی ہے اور یہی دیکھتی ہے،وہ اس کے لئے تیار نہیں ہے۔قائد اعظم نے جمہوری طریقے سے ملک بنایا تھا،جموری روایات قائم کی تھیں،ایک سیاسی جماعت بنائی تھی،ایک سیاسی جماعت نے آزادی کی تحریک چلائی تھی۔یوں ایک طرف وہ ہے،ایک طرف یہ ہے۔یہی کشمکش ہے جو ہمارے ملک کے لئے سب سے خطرناک ہے۔ دوسرا مذہبی اور قومی ریاست ،پاکستان تاریخی طور پر ایک قومی ریاست کے طور پر وجود میں آیا لیکن یہاں کا مذہبی طبقہ اسے ایک مذہبی ریاست بنانا چاہتا ہے،اب اس سے ایک کشمکش پیدا ہوئی ہے،ہر جگہ آپ کو اس کشمکش کے آثار نظر آئیں گے یعنی جیسے حکومت آپ کو بظاہر جمہوری لگتی ہے لیکن یا تو پیچھے بندوق ہوتی ہے یا پھر چاہتی ہے تو آگے بھی آ جاتی ہے۔اسی طریقے سے بظاہر آپ کا آئین ایک جمہوری آئین ہے لیکن اس کے ساتھ ایک مذہبی آئین بھی ہے،اس کا ایک ملغوبہ ہے جو ہم نے تیار کر رکھا ہے۔یہ دونوں چیزیں ہیں جو ہمارے ہاں سرائیت کئے ہوئے ہے۔اب صورتحال یہ ہے کہ لوگ بھی اسی کے عادی ہیں،وہ محکومی کے خوگر ہو چکے ہیں،ان کے اندر جمہوریت کا جمہوری اقدار کا،جمہوریت میں عام آدمی کو اختیار دیا گیا ہے۔جمہوریت کیا ہے،عام آدمی کو اختیار دیا گیا ہے کہ حکومت تم ہو ،تمہیں فیصلہ کرنا ہے،تمہارے فیصلے کو برتری حاصل ہے،بندوق تمہارے ماتحت رہے گی۔بندوق سے یہ منوانا کوئی آسان کام ہے؟ یعنی آدمی کے پاس بندوق ہو اور ہم نہتے اس کو لیکچر دے رہے ہیں ، فلسفہ بگھار رہے ہیں، کیا حیثیت ہے اس کی؟ پھر وہ فلسفے بناتا ہے اصل میں تو میں یہ میں ہوں جو تمھاری حفاظت کر رہا ہوں،میں ہوں جو تمھارے لئے کام کر رہا ہوں، یہ میرا فیضان ہے۔ بادشاہ کیا کرتے تھےَ ظل الہی ۔اصل میں بندوق اور بندوق کے اوپر بیٹھا ہوا بادشاہ،بندوق کے اوپر بیٹھا ہوا سپہ سالار وہ اصل میں وہ سب کچھ ہوتا ہے،دنیا اور آخرت دونوں میں کامیاب ہوتا ہے۔وہی ہوتا ہے جو لوگوں کو یہ تاثر دیتا ہے ،پروپیگنڈے کی مشینری اس کے پاس ہوتی ہے،بادشاہت ایسے ہی قائم ہوتی ہے۔آپ کا کیا خیال ہے کہ ایک آدمی کے بعد اس کے بیٹے کو ہم اپنے سر کا تاج بنا لیں؟ ہے نا حماقت! کرتے رہے نا لوگ ،اب بھی کرتے ہیں۔مغربی دنیا میں اب آئینی اختیارات ہو گئے ہیں۔اگر آپ علم و عقل کی روشنی میں دیکھیں تو یہ ملکہ عالیہ کیا کر رہی ہیں،بادشاہ سلامت کیا کر رہے ہیں؟ان شہزادوں کی کیا ضرورت؟لیکن انسان بھی محکومی کا خوگر ہے اور یہ ساری چیزیں بھی ایک حد تک اسے fasinateکرتی ہیں۔طاقت کی وہ پرستش بھی کرتا ہے،طاقت اسے اچھی بھی لگتی ہے۔طاقت کا ظہور ہوتا ہے تو اس کے اندر ایک خاص جذبہ پیدا ہوتا ہے۔وہ صدیوں تک طاقت کی پوجا کرتا رہا ہے ۔یہ ساری نفسیات ہے جو بندوق والوں کے ہاں بھی ہے ،جن پر وہ حکومت کر رہے ہیں ان کے لئے بھی۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے بالکل ساتھ یعنی بھارت میں، ہندوستان میں سیاسی قوتوں نے یہ بات ایک حد تک منوا رکھی ہے،وہ بھی ظاہری طور پر منوا رکھی ہے لیکن بڑی حد تک منوا رکھی ہے ،ہم اس کو نہیں منوا سکے۔وجہ کیا ہے؟ وجہ ہماری قوم ہے۔اس وقت بھی آپ دیکھے لوگ قصیدے پڑہتے ہیں، لوگ ان کو مسیحا سمجھتے ہیں۔یعنی جن کو نفرت کا ہدف بن جانا چاہئے ، وہ مسیحا ! اوراس کے بعد یہ بندوق ، بادشاہت ،استبدال،آمریت ،یہ کہے گی آپ کو کہ ہم قانون کی پابندی کر رہے ہیں لیکن یہ قانون شکنی کرے گی آپ کے ساتھ،یہ سازشیں کرے گی آپ کے سامنے۔اس کی تاریخ ہزاروں سال تک پھیلی ہوئی تاریخ ہے۔اس لئے کسی باضمیر آدمی کو ایک لمحے کے لئے بھی اس کو قبول نہیں کرنا چاہئے اور اعلان کرنا چاہئے اس بات کا کہ بادشاہی یا خدا کے ہاتھ میں ہے یا ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے جن پر حکومت قائم ہونی ہے۔لیکن آپ کا کیا خیال ہے کہ یہ بات آسانی سے مانی جائے گی؟ اس کے لئے بڑی جدوجہد کی ضرورت ہے۔''

Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 777 Articles with 698854 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More