محبت کی زیادتیاں اور جدید دور

محبت چار حروف پر مشتمل ایک چھوٹے سے لفظ نے دنیا کو اپنی انگلیوں پر خوب نچانا شروع کر دیا ہے .ہر سو ہر جگہ اگر کسی کی چلتی ہے تو فقط محبت ہے. جبکے کبھی محبت سے دنیا ور اس میں بسنے والے چلتے تھے . یاد آتے ہیں وہ دن خوب جب سسی پنو ، شیریں فرہاد ، سوہنی ماہیوال اور ہیر رانجھا اپنی محبت کی انمول داستان لکھتے ہوے اور اسکو سجانے کے واسطے اس میں خوبصورت موتی پروتے ہوے اس جہان فانی کو خیر بعد کہ کر محبت کی عظیم مثال رقم کر گئے . کیوں کے وہ دور اور اس زمانے میں بسنے والے لوگوں کی زندگیاں اس لفظ سے اچھی خاصی وابستگی رکھتے تھے . اب ذرا جدید دور کو دیکھ لیا جائے .

محبت تو یہاں بھی بیشمار ہے ، ہر گلی ہر کوچے میں ہر چوبارے پر ہر ضلع ہر شہر ہر گاؤں میں بھیا ایک عاشق ور ایک اسکا چمکتا دھمکتا محبوب اسی گلی کے کسی کونے میں رہائش پذیر ہوتا ہے. جسکو دیکھ کر سارا دن گزرتا ہے . جب غلطی سے محبت کا اقرار ہو جائے تو صاحب ساتھ والے پارک میں اسکا خوب مزہ لیا جاتا ہے اور کیوں نا ہو محبت ہے کوئی مذاق تھوڑی کے ہم پارک کی رنگین اور دلکش فضاؤں کا لطف بھی نا اٹھائیں، آج وہ محبت ہی کیا جس میں ماں باپ کو دھوکا دیے بغیر جناب محبوب کے ساتھ کسی اچھے سے ہوٹل میں ایک یادگار ڈیٹ کا اہتمام نا کر لیا جائے اور سیکڑوں کی تعداد میں وعدوں کا اقرار نا کر لیا جائے. اس سے زیادہ تو کچھ نہیں ہوتا بس محبت کو ایک اچھے خاصے نچلے درجے پر لے جا کر اپنے پاؤں کی مدد سے اسے زمین میں گاڑ کر پھر چند لمحوں بعد ضمیر کو جگا کر یہ ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے کے ہماری محبت تو جنسی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے تھی لہٰذا الله حافظ.

دو محبتوں کا ذکر اوپر ہم نے کیا ، اعتراضات ہوں تو سنمبھال کے رکھیے گا کیوں کے ہم نے جو دیکھا صاحب ارشاد فرما دیا، شاید ہماری آنکھوں کو موتیا ہوگیا ہو اسی لئے سہی دکھائی نا پڑا ہو ہاں مگر جب کہ دیا تو آگے بھی کہے دیتے ہیں . الله حافظ تو دونوں صورتوں میں ہوا ، پہلی میں جہان کو دوسری میں ایک دوسرے کو ، وہاں جنسی سوہبت پانے کے واسطے ہوا یہاں کر کے ہوا . فرق صرف اتنا ہے جدید دور میں ہر شے جدید اور کافی تیز تراز ہو گئی ہے ، جب ہم اس بات پر بیحد خوش ہوتے ہیں کہ میلوں کے فاصلے گھنٹوں میں طے ہو جاتے ہیں تو اس بات سے اجتناب یا اختلاف کاہے کو کے سالوں کی محبت کا منٹوں میں حساب کتاب کر دیا جاتا ہے اور اسکو برقی رفتار دے کر فورن آنکھوں سے اوجھل کر دیا جاتا ہے. جس سے ہوتا کچھ نہیں بس ایک نوجوان خوبصورت لڑکی کا رشتہ لیتے ہوے ڈر صرف اس بات سے لگتا ہے کے شاید اسکا کوئی پرانا عاشق ہمارے دربار پر حاضری نہ دیدے اور کہیں تخت سلیمانی کو الٹ نہ دے . اور دوسری جانب ایک اونچے قد والے ماں کے چاند کے ساتھ اس لئے رشتہ نہیں باندھا جاتا کیوں کے ڈر لگتا ہے ، کہیں دوسروں کی طرح ہماری بیٹی کو بھی تباہ و برباد نا کر دے یہ ناس پیٹا ، اب اس سے بھی کچھ نہیں ہوتا صرف رشتوں اور انسانوں پر سے اچھا خاصا اعتبار جو شاید روز ازل سے تھا وو کم ہونے لگ جاتا ہے ، اس سے کیا فرق پڑتا ہے اعتبار تو انے جانے والی چیز ہے .

اب اپ بتائیں اس جدید دور میں ہم محبت کو نام دیں بھی تو آخر کیا.... ایک ایسا جذبہ جو اگر جنون اختیار کر لے تو آپکے لباس کے اس پار جا کر ختم ہوتا ہے ... یا پھر ایسا احساس جو کے نگاہوں کی مستی اور جسمانی صلاحیات سامنے والے کو دکھا کر پورا ہو... یا پھر یہ ایک اسی حقیقت ہے جسکا چھپا رہنا ہی تمام بنی نوع انسان کے لئے بہتر ثابت ہوگا .. میں آج تک اس محبت کو انصاف نا دے سکا ...سمجھنا چاہا لیکن یہ بھی نا ہو سکا .

بس ایک نتیجے پر پہنچ گئے ہیں کے محبت کو اگر جدید دور میں اسی رفتار پر رکھیں گے تو شاید آنے والے وقتوں میں اسکی قدر و قیمت بلکل نہ ہونے کے برابر ہو گی ..... لہٰذا اس خوبصورت جذبے کو اپنے ذاتی مفادات کے لئے استمال کرنا اس کے ساتھ نہایت ظلم و زیادتی ہے... اسکو اگر سہی طور پر سمجھنا شروع کردیں تو جیون سنورنے لگیں گے ، زندگیاں خوشحال ہونگی ، اور رشتے بھال ہونگے ورنہ اسکی زیادتیوں سے تو آپ بخوبی واقف ہیں .... کہا سنا معاف الله تعالیٰ نے جیسی محبت کرنے کو کہا اسے ویسا ہی رہنے دیں ورنہ انجام تباہی کے مناظر پیش کریں گے.

 

Sayoon Gill
About the Author: Sayoon Gill Read More Articles by Sayoon Gill: 4 Articles with 3826 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.