علامہ اقبال ، احسان الہی ظہیر ، فیض احمد فیض ،اور
گونگاپہلوان جیسی نابغہ روزگار تاریخی شخصیات کی جائے پیدائش سیالکوٹ شہر
اپنے جغرافیے کے لحاظ سےبڑی افادیت کا حامل رہاہے ، اس شہر پہ ہندو اور سکھ
تہذیب کی بڑی گہری چھاپ رہی ہے ۔جموں جیسے خوبصورت اور پرفضامقام کے
انتہائی قریب ہونے کے باعث پرانے وقتوں میں بڑے بڑے بادشاہوں کا پہاڑی
علاقوں میں آتے جاتے یہاں بسیراکرنا معمول رہاہے ۔آج یہ شہر کھیلوں کے
سامان کے حوالے سے پوری دنیا میں جانا جاتاہے، یہاں کے تیار کردہ فٹبال ،
دستانے،کرکٹ بیٹ اور سرجیکل اوزار پوری دنیا میں پسند کئے جاتے ہیں ۔
جموں کے قریب پنجاب کے شمال مشرق میں واقع " سیالکوٹ" شہر پانچ ہزار سالہ
یا اس سے بھی زائد شاندار تاریخ رکھتا ہے ۔یہ ایک قدیم ترین شہر ہے جسے "
راجہ شل " یا " راجہ سل " نے بسایا ۔ ہندووں کی مقدس اور تاریخی کتاب " مہا
بھارت " میں بھی اس کا تذکرہ موجود ہے اور دلچسپ بات یہ کہ جموں سے آنے
والے "نالہ ایک " ( جو اب صرف ایک گندہ نالہ بن کر رہ گیاہے)کا تذکرہ بھی
مہا بھارت میں موجود ہے، مہا بھارت میں اس نالے کا قدیم نام "
اپکاندی"لکھاہواہے۔
سیالکوٹ شہر کےنام کے متعلق دو مشہور روایات ہیں ۔ایک روائت میں "راجہ سل "
نے اپنے نام پر اس کا نام " سل کوٹ" رکھا جو بعد میں سیالکوٹ بن گیا ۔
دوسری روائت کہ مطابق " راجہ شل " نے اس کا نام
" شاکل نگری " رکھا ۔ تین ہزار سال تک یہ شہر سل یا شاکل کے نام سے ہی جانا
جاتا رہا ۔
قریب دوہزار سال پہلے راجہ شالباہن نے اس شہر میں ایک عظیم الشان قلعہ
تعمیر کرایا۔ قلعے کو ہندی زبان میں چونکہ کوٹ کہا جاتا تھا اس لئے اس کا
نام سل کوٹ یا شاکل کوٹ ہوگیا جو اب پانچ ہزار سال بعد سیالکوٹ کے نام سے
جانا جاتا ہے ۔پنجابی ادب سے دلچسپی رکھنے والے مشہور (جوگی )پورن بھگت کو
جانتے ہیں ( جس کے کئی قصے مشہور ہیں )یہ پورن بھگت راجہ شالباہن کا بیٹا
ہی تھا جو معاشرتی اونچ نیچ سے تنگ آکر تارک الدنیا فقیر ہوگیاتھا۔ شہر سے
تھوڑی دور وہ تاریخی قصبہ " کرول" ہے جس کے کنویں میں پورن بھگت
کوپھینکاگیا، صدیوں تک ہندو عورتیں اس کنویں پہ اولاد حاصل کرنے کے لئے آکر
نہاتی رہیں ۔
شہر کے بیچوں بیچ ایک مشہور مزار ہے جسے امام صاحب کے نام سے جانا جاتاہے،
لوگ انہیں صرف صوفی اور تارک الدنیا درویش سمجھتے ہیں ۔لیکن حقیقت میں ایسا
نہیں ہے امام علی الحق (امام صاحب )بن سید حسن ایک مجاہد غازی اور اور
بہادر سالار تھے۔ جو سلطان فیروز تغلق ( 1351ءتا1388 )کے دور میں یہاں کے
ظالم راجہ سہنپال کے خلاف جہاد کرتے ہوئے نالہ ایک (اپکاندی)کے آس پاس کہیں
شہید ہوئے ۔ان کی قبر کے پاس ہی علامہ اقبال کے والدین اور بڑے بھائی کی
قبریں موجود ہیں ، کہاجاتا ہے کہ ان کی فتح کے بعد اس شہر سے ہمیشہ کے لئے
ہندووانہ رواج اور اثر و رسوخ ختم ہوگیا۔
مغلوں کے دور میں اس شہر نے خوب ترقی کی اور پھلاپھولا، پھر 1807ءمیں
مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اس شہر پہ قبضہ کرلیا (اور سکھوں کے دور میں ہی
اقبال کے آباء و اجداد نے بھی جموں سے ہجرت کرکے اس شہر میں سکونت
اختیارکی)مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور میں یہاں کے مسلمانوں پہ مشکلات کا ایک
نیا باب شروع ہوا ۔
تحریک پاکستان میں سیالکوٹ کے باسیوں کا کردار ناقابل فراموش ہے ، مسلمانان
ہند کو الگ آزاد وطن کا خواب دکھانے اورقائداعظم محمدعلی جناح کو برصغیر کے
مسلمانوں کی قیادت کے لئے تیار کرنے میں اہم کردار ادا کرنے والے علامہ
اقبال اسی شہر کے فرزند تھے ۔ تقسیم کے بعد اس شہر کے مکینوں نے بے مثال
ایثار اور قربانی کی لازوال مثالیں قائم کرتے ہوئے مہاجرین کا استقبال کیا
انہیں اپنے گھروں میں جگہ دی ، سیالکوٹ کے دیہات کی ذیادہ تر آبادی جموں سے
آئے ہوئے مہاجر خاندانوں پر مشتمل ہے ۔ یہاں چاول اور گندم کی فصل بڑی اچھی
پیداوار دیتی ہے ، لوگ خوش مزاج اور محبت کرنے والے ہیں ، صنعتی شہر ہونے
کی وجہ سےبیروزگاری اور غربت دوسرے شہروں کی نسبت کم ہے ۔ |