سکھوں کو فروری 1849 میں مکمل شکست دینے کے بعد انگریز
پوری طرح پنجاب پر قابض ہو گئے اور اس کے بعد بتدریج انہوں نے ہر شعبے میں
اصلاحات کی ابتدا کی۔ 1854میں تعلیم کے لئے پنجاب ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی
بنیاد رکھی گئی۔اس محکمے کا مقصد پنجاب کے عوام کو جدید سیکولر طرز تعلیم
سے روشناس کرانا تھا۔اس بارے جہاں سرکاری سکولوں کو اپنی ضروریات کے مطابق
ڈھالا گیا وہاں پرائیویٹ سکول کو گرانٹس اور مدد دے کر مطلوبہ نتائج حاصل
کئے گئے۔1860 میں ہائر ایجو کیشن کے لئے بہت سے کالجوں کا قیام عمل میں
لایا گیا،ان کالجوں میں لار نس کالج گھوڑا گلی مری، کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج
لاہور، گورنمنٹ کالج لاہور،گلانسی میڈیکل کالج لاہور ،جو 1920 میں گورنمنٹ
کالج امرتسر کے نام سے ،امرتسر شفٹ کر دیا گیا ،فارمن کرسچین کالج لاہور
اور کچھ دوسرے ادارے شامل ہیں۔
اس زمانے میں پنجاب کے ضلع دہلی کی ایک تحصیل انبالہ، جو آ ج ہریانہ میں
واقع ہے ، کا ڈپٹی کمشنرکیپٹن تھائی تھا۔ 1864 میں اس نے یہ سوچ کر کہ یہاں
کے امرا کے بچوں کی کردار سازی ان خطوط پر ہونی چاہیے کہ وہ بچے پڑھنے کے
بعد ان کی ضروریات اور مرضی کے مطابق حکومت ہند کا انتظام اور نظم و نسق
چلانے میں ان کے مدد گار بن سکیں۔اس سوچ کی تکمیل میں اس نے ایک نئے ادارے
وارڈز سکول (Wards School) کی انبالہ میں بنیاد رکھی ۔کچھ ہی دنوں میں اس
ادارے نے کام شروع کردیا۔اس سکول کا بنیادی مقصد ایسی نسل تیار کرنا تھاجو
حکمرانوں کی کاسہ لیسی، چاپلوسی، جی حضوری اور خوشامد میں تو یکتا ہو مگر
خود کو انگریزوں کے انداز میں ڈھال کر اپنے ہی ہم وطنوں کو ہمیشہ کیڑے
مکوڑے سمجھتی رہے۔پنجاب کے گورنر کو اس سکول کا قیام اس قدر پسند آیا کہ اس
کے حکم پربعد میں یہ کالج چیف کالج کے نام سے لاہور منتقل کر دیا گیا اور
13 نومبر 1886کو پنجاب کے گورنر ایچیسن کے نام پر اس کا نام ایچیسن کالج
رکھ دیا گیا۔لاہور کاموجودہ ایچیسن کالج آج بھی اپنے طلبا کی کردار سازی کے
حوالے سے اسی غلامی کے دور کی عظیم یادگار ہے اور اس کا منشور ،اس کا دستور
آج بھی انہی خطوط پر استوار ہے کہ جس بنیاد پر وارڈزسکول قائم کیا گیا
تھا۔اس دستور میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔
چند دن ہوئے ملک کی ایک نامور خاتون سیاستدان کے بیٹے کا جو وہاں کا طالب
علم تھا کالج کے کسی دوسرے طالب علموں سے جھگڑا ہوا۔ جناب پرنسپل صاحب نے
سزا کے طور پر خاتون سیاستدان کے بیٹے اور ایک دوسرے طالب علم ، دونوں
کوادارے سے نکال دیااور ان کا اے لیول کا داخلہ روک دیا۔ خاتون سیاستدان نے
ہائی کورٹ میں رٹ کر دی ۔ کسی نامورسیاستدان خاتون کی رٹ ہو اور ہائی کورٹ
فوری نہ سنے یہ کیسے ممکن تھا۔ عام آدمی کی رٹ چھ چھ ماہ سنی نہیں جاتی اور
بعد میں خوبصورتی سے اسے ٹرخایا جاتا ہے۔ ایسے کیسوں میں عام لوگ عدالتوں
میں رسوا اور ذلیل ہوتے ہیں مگر عام آدمی کی کیا حیثیت ہے کہ کورٹ کے ذمہ
دار شرم محسوس کریں۔ توہین عدالت ایک ایسا ہتھیار ہے کہ جو بولے وہ مجرم ۔
لیکن ہماری عدالتوں میں الیٹ کلاس کے ہمدرد اور غمگسار بہت بڑی تعداد میں
موجود ہیں۔ الیٹ کلاس کے لئے عدالتیں اور عدالتی اہلکار موم کی طرح ڈھلتے
ہیں۔یہ ہمارا عدالتی کلچر ہے اور اسے جدوجہد کے باوجود ذمہ داران بدل نہیں
سکتے۔چنانچہ اس رٹ کی شنوائی بھی فوراً ہوئی اور خاتون کے بیٹے کو سٹے مل
گیا۔ایچیسن کالج کے بورڈ آف ڈائریکٹر نے بھی پرنسپل پر دباؤ ڈالا۔ لیکن
پرنسپل صاحب نے اس دباؤ کے خلاف پرنسپل شپ سے استفیٰ دے دیا۔نکالا گیا طالب
علم اب دعویٰ کرتا پھر رہا ہے کہ جب تک اسے اس کی مرضی کا انصاف نہیں ملتا
وہ جدوجہد جاری رکھے گا۔
میں نے بہت دفعہ پہلے بھی لکھا ہے کہ ہر علاقے اور ہر معاشرے میں ہر دور
اور ہر وقت میں دو تہذیبیں ہوتی ہیں ۔ ایک وہاں کے عام لوگوں کی تہذیب اور
دوسری وہاں کے اشرافیہ کی تہذیب ۔عام آدمی کی تہذیب اس معاشرے کی حقیقی
تہذیب ہوتی ہے اور تاریخ اسکو اسی طرح قبول اور محفوظ کرتی ہے۔جب کہ
اشرافیہ کی تہذیب اس وقت کی ایک مکروہ تہذیب ہوتی ہے اور تاریخ میں اس
تہذیب سے وابستہ لوگوں کے غلیظ کارنامے، مکروہ دھندے اور عام لوگوں کے ساتھ
کئے گئے ظلم و ستم تو تاریخ محفوظ کرتی ہے مگر اشرافیہ کی اس تہذیب کو اس
معاشرے کی اصل تہذیب کبھی قرار نہیں دیتی۔ اشرافیہ کی اس تہذیب سے وابستہ
لوگ حقیقت میں بڑے لوگ نہیں ، بہت چھوٹے لوگ ہوتے ہیں ، نام، نمود، شہرت
،اقتداراور جھوٹی عزت کے ہرو قت متلاشی اور اس مقصد کے لئے ہر گھٹیا اور
برا حربہ آزمانے کو ہر دم تیار۔کبوتر با کبوتر، باز با باز کی طرح ،اشرافیہ
کے یہ لوگ ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں اور پوری طرح ایک دوسرے کے مدد
گارہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خاتون سیاستدان کا بیٹا ہر طرف سے اشرافیہ کی
مدد حاصل کرکے اب پوری طرح دندناتا پھرتا ہے۔
پرنسپل صاحب کے استعفیٰ کی خبرکا سن کر لوگوں نے سوشل میڈیا پر شور مچا
دیاجس کے نتیجے میں پرنسپل صاحب کو کچھ تقویت ملی اور انہوں نے اپنا
استعفیٰ واپس لے لیا۔اس سارے واقعے پر جس قدر بھی افسوس کیا جائے کم
ہے۔والدین کو اندازہ ہی نہیں کہ اپنے ایسے بچوں کی حوصلہ افزائی کرکے وہ ان
کے مزید بگاڑ کا باعث بنتے ہیں۔وقت تیزی سے بدل رہا ہے جس کااشرافیہ کو
احساس شاید اس وقت ہو گا جب حالات ان کے لئے بہت خراب ہو جائیں گے۔کالجوں
اور سکولوں کا اپنا ایک ڈسپلن ہے۔اس ڈسپلن کی ایک کمیٹی محافظ ہوتی ہے اور
اس کی سفارش پر پرنسپل ہر قدم اٹھاتا ہے۔اس ملک کی بقاکے لئے اس ملک کے
اداروں اور اس کے ذمہ داروں کا احترام ہمارا اخلاقی فرض ہے۔چیف جسٹس صاحبان
عدلیہ میں اس مسئلے پر غور کریں امرا کے ایسے کیس فوراً کیسے سنے جاتے ہیں
او ر ان کا جھٹ فیصلہ کیسے اور کیوں دیا جاتا ہے اور صرف اس کلچر کو ہی ختم
کروا دیں تو عوام پر ان کا بہت بڑا احسان ہو گا۔ |