اللہ تعالٰی کے بندے جو نیکی یا بدی کے کام کرتے ہیں ، وہ
سب اللہ تعالٰیکے علمٍ ازلی کے مطابق ہوتا ہے، یعنی جیسا ہونے والا تھا،
اور جو جیسا کرنے والا تھا اللہ تعالٰی نے اسے اپنے علمٍ ازلی کے مطابق
جانااور وہی لکھ لیا- تو وہ سب کچھ اللہ کے علم میں ہے اور اس کے پاس لکھا
ہوا، اسی کا نام تقدیر ہے-
یہ بات کہنا بڑی بے ادبی و محرومی ہے کہ جیسا اس نے لکھ دیا ، ایسا ہی ہم
کو کرنا پڑا ہے ، یعنی ہم ایسا ہی کرتے پر مجبور ہیں- بلکہ بات دراصل یہ ہے
کہ جیسا ہم کرنے والے تھے ، وہ اس نے اپنے علمٍ ذاتی ازلی سے جانااور لکھ
دیا- کسی کے ذمے برائی لکھی، اس لیے کہ وہ برائی کرنے والا تھا- اگر وہ
بھلائی کرنے والا ہوتا تو وہ اس کے لیے بھلائی لکھتا- تو اس کے علم یا اس
کے لکھ دینے نے کسی کو مجبور نہیں کر دیا-
آدمی جس طرح نہ آپ سے آپ بن سکتا تھا، نہ اپنے لیے کان، ہاتھ، پاؤں، زبان
وغیرہ بناسکتا تھا یو نہی وہ اپنے لیے طاقت ، قوت ، ارادہ ، اختیار بھی
نہیں بنا سکتا- سب کچھ اسی نے دیا اور اسی نے بنایا- ارادہ و اختیار بھی
انسان کو بخشا کہ ایک کام چاہے کرے چاہے نہ کرے- تو اس ارادہ و اختیار کے
پیدا ہونے سے آدمی صاحب ارادہ اور صاحب اختیار ہوا نہ کہ بے اختیار اور
مجبور و ناچار - اسے یوں سمجھو کہ اللہ تعالٰی نے آدمی کو پتھر اور دیگر
جمادات کی طرح بے حس و حرکت نہیں پیدا کیا- بلکہ ایک نوع اختیار دیا ہے اور
اس کے ساتھ عقل بھی دی ہے کہ بھلے برے ، نفع و نقصان کو پہچان سکے- پھر ہر
قسم کے سامان اور اسباب پیدا کر دئیے ہیں کہ جب کوئی کام کرنا چاہتا ہے تو
اسی قسم کے سامان مہیا ہو جاتے ہیں اور اسی بناء پر مواخذہ اور حساب و کتاب
ہے- اپنے آپ کو بالکل مجبور یا بالکل مختار سمجھنا دونوں گمراہی ہیں-
تدبیر ، تقدیر کے منافی نہیں ، بلکہ تقدیر الٰی کے موافق ہے ، جس طرح تقدیر
کو بھول کر ، تدبیر پر پھولنا، اور اسی پر اعتمادٍ کلی کر بیٹھنا کفار کی
خصلت ہے- یوں ہی تدبیر کو محض عبث و فضول اور لاحاصل و مہمل بتانا کھلے
گمراہ یا سچے مجنون کا نام ہے-
بُرا کام کر کے مشیت الٰی کے سپرد کرنا یا اسے تقدیر کی طرف منسوب کرنا کہ
تقدیر میں لکھی تھی بیت بُری بات ہے اور خلافٍ ادب- حکم یہ ہے کہ جو اچھا
کام کرے اسے منجانب اللہ کہے کہ فضلٍ خداوندی سے اور اس کی توفیق سے ایسا
ہوا، اور جو بُرائی سرزو ہو، اسے شامتٍ نفس تصور کرے کہ ہمارے بد اعمال کا
نتیجہ ہے جو سامنے آیا-
تقدیری امور ، یعنی قضاء قدر کے مسائل عام عقلوں میں نہیں آسکتے- ان میں
زیادہ غور و فکر کرنا ، یا انہیں اپنی محفلوں میں ذریعہء بچت بنالینا،
ہلاکت ونامرادی کا باعث ہے- صدیق اکبرو فاروقٍ اعظم رضی اللہ عنہما جیسی
عظیم شخصیتوں کو اس مسئلہ پر بحث کرنے سے منع فرما دیا گیا- ماوشما کس گنتی
میں ہیں- عقیدہ اہلسنت کا خلاصہ بس یہی ہے کہ انسان نہ پتھر کی طرح مجبور
محض ہے اور اپنے ارادہ و اختیار سے کوئی حرکت کر سکے اور نہ خودمختار و
شترٍ بے مہار ہے کہ جو چاہے کرتا پھرے اور اس سے کوئی باز پُرس نہ ہو-
تقدیر ان دونوں کے درمیان ایک حالت ہے-
|