مصلحت اور مصالحت کا زہر؟

اگر مصلحت اور مصالحت سے قطع نظر ادارے قاتلوں ، لٹیروں اور غداروں کو بے نقاب کرنے کی رسم اس ملک میں رائج کر دیتے تو یہ کچھ نہ ہوتا جو آج اس ملک کے عوام ہر سو دیکھ رہے ہیں، لیاقت علی خان کا قتل ، جس کے حقائق چھپائے گئے، فائل سے ریکارڈ بھی غائب، فاطمہ جناح کا قتل طبعی موت قرار دے کر دبا دیا گیا سالوں بعد قتل کی سازش کا انکشاف اس کی کوئی تفتیش نہ ہوئی، حکیم سعید کا متنازع قتل اصل مجرمان سزا نہ پا سکے ، بھٹو کا قتل اصل محرکات پر تفتیش نہیں ہوئی، متنازعہ فیصلے پر پھانسی، ملک کے صدر اور فوجی سربراہ ضیاء الحق کے طیارے کا حادثہ کی تفتیش اور اصل ملزمان کی تعین سے قاصر ، بلوچستان اور کراچی اور حیدرآباد میں فوجی آپریشن میں بیگناہوں کا قتل، ائر مارشل مصحف علی میر کے طیارے کے حادثے میں ہلاکت کی سازش ، جنرل آصف نواز کا ناگہانی قتل ، کہیں ٹارگٹ کلنگ ، کہیں ماورائے عدالت قتل ، سر عام سیالکوٹ کے معصوم بھائیوں کا سفاکانہ قتل۔ ملک میں افراد کا غائب ہو جانا ، جھوٹے الزامات لگا کر لوگوں کی زندگیوں کو جہنم بنانے کے حر بے ۔ نامعلوم قاتلوں کا ایف آئی آر میں اندراج اور کسی بھی فرد کو اس میں پھنسانے کے حربے تفتیش کا کون سا طریقہ ہے۔ یہ سب کیا منظر کشی کرتا ہے ۔ کسی قتل کا کسی بھی شخص پر الزامات عائد کر کے اصل مجرمان کو تحفظ دینے کی رسم کے رواج کو فروغ دینے والے بتائیں کہ ملک آج کہاں کھڑا ہے۔ ملک کی کثیر تعداد قانون کی حکمرانی چاہتی ہے۔

اصل حقائق افشا کرنے کا کام عدلیہ کا ہے اور بدقسمتی سے اسے یہ کام آزادی سے نہیں کرنے دیا گیا لیکن ایسی کون سی مصلحت ججوں کو انصاف ہی کا خون کرنے پر مائل کرتی ہے ۔ اسی رویے کی بنا پر غاصبوں کو شب خون مارنے میں کوئی دقت نہیں ہوتی انکے اقدا م کو مصالحت سے کام لے کے یہی ادارے تحفظ بھی فراہم کرنے کے ذمہ دار ہیں ۔ اور کچھ چور دروازوں سے اقتدار حاصل کرنے والے ان غاصبوں کو مدد فراہم کر کے اصولی سیاست پر نازاں ہوتے ہیں چونکہ مصلحت اسی میں تلاش کرتے ہیں ۔ انہیں قانون اور ضابطہ اخلاق کی دھجیاں اڑانے اور پورے نظام کو برباد کرنے پر سزا کا سامنا بھی ہونا چاہئیے ۔ اس بارے میں صرف اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ ایسی مصلحت ا ور مصالحت ہی ملکی بربادی کا باعث ہے جو قوم جا بجا دیکھتی آ رہی ہے۔ لیکن اب وقت مصلحت اور مصالحت کے اس رواج کے خاتمہ کا متقاضی ہے ۔

ابھی پچھلے دنوں ایک سابق ڈی آئی جی ملک حمید اور انکی اہلیہ کو دن دھاڑے قتل کر کے ایک تاریخ کا خاتمہ کر دیا، وہ کوئٹہ کی اسپیشل برانچ میں کام کرتے رہے ، ان کے صاحب زادے سپریم کورٹ کے سینئر جج بھی ہیں اور ایک عسکری شعبے سے متعلق ہیں انہیں گارڈ بھی مہیا کی گئے تھے ۔ اس قتل کے محرکات اور اسبا ب پر کھلی تفتیش کی ضرورت ہے اور قاتلوں کو پکڑنا پولیس کا کام ہے انہیں اب صحیح تفتیش کرنا ہوگی یہ نامعلوم کا دور برداشت نہیں کیا جا سکتا، ذاتی دوستیاں ، نوازشات ، مصلحت اور مصالحت ،تفتیش میں رکاوٹیں حائل کرنے والے بھی ملزم ہی نہیں مجرم ہی کی طرح سمجھے جائیں ، اور انہیں انصاف کے عمل میں مرتکب قرار دے کر سزا دی جائے۔

کراچی اور ( بلوچستان میں) کوئٹہ میں ٹارگٹ کلنگ تسلسل سے کی جا رہی ہے۔ قاتل اور دھشت گرد کھلے عام اپنی کاروائیاں کر کے دن دھاڑے غائب ہو جاتے ہیں ۔ ادارے ان پر گرفت کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں اور پارٹیاں سیاسی کھیل شروع کر کے الزامات کا ایک طوفان کھڑا کر کے اداروں کا مذاق اڑا کر ہمدردیاں حاصل کرنے میں لگے رہتے ہیں ۔

اس معاشرے کا سب سے بڑا المیہ معمولی ملازمتوں پر متمکن افراد کی بڑی بڑی جائیدادوں کا ہونا ہے اور حیرت انگیز طور پر چھپر چھاڑ کر دولت کمانے والے بھی اس ملک میں بہت ہیں ان کے محاسبے کی بھی اشد ضرورت ہے یہی معاشرہ میں اصل خرابی کے زمہ دار ہیں ۔ لٹیرے معززین کے لبادے اوڑھے شرفاء کی پگڑیاں چوک پر اچھال رہے ہیں ۔ چور اس ملک میں وی وی آئی پی بن کر لوگوں کو حب وطنی کا درس دیتے نظر آتی ہیں انہیں پکڑ نے میں اب بھی کچھ مصلحت ہی نظر آتی ہے ، ان پر ہاتھ ڈالنا میں کیا قباحتیں ہیں۔ جس سے محب وطن قانون پرستوں میں مایوسیوں کے بادل چھا گئے ہیں ۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ قانون بنانے والے ادارے ایک خصوصی عدالت کے قیام کی منظوری دیں تا کہ عدلیہ ان متنازعہ مقدمات کی دوبارہ تفتیش کر کے اصل محرکات اور مجرموں کا تعین کریں۔ آج بینظیر کا قتل اپنے اندر جانے کتنی مصلحتیں سمیٹے ہوئے ہے ، لال مسجد کے معصوم شہیدوں کی روحیں انصاف کی متمنی ہیں۔ اس وقت ملک جس دوراہے پر ہے اسے قرض دینے ولے عالمی اداروں کے چنگل سے نجات دلانا بھی وقت کی شدید ضرورت ہے ۔ آج عدلیہ آزاد ہے اور عوام کو اس سے بڑی توقعات ہیں کہ فوج نہیں عدلیہ چوروں اور لٹیروں سے لوٹی ہوئی دولت کی واپسی احسن طریقے سے نمٹانے کا حوصلہ رکھتی ہے اس سے ملک کو قرض سے نجات ملے گی اور عالمی اداروں کی اجارہ داری کم ہو گی۔ مصلحت اور مصالحت کا زہر ملک کو کس حال تک پہنچا گیا پر اب مزید گنجائش نہیں۔
Riffat Mehmood
About the Author: Riffat Mehmood Read More Articles by Riffat Mehmood: 97 Articles with 75627 views Due to keen interest in Islamic History and International Affair, I have completed Master degree in I.R From KU, my profession is relevant to engineer.. View More