اسلام, آج کا نوجوان اور اسکا کردار

مسلمان نوجوان نسل کی مکمل راہنمائی اسلام کے ابدی اصولوں میں پوشیدہ ھے لیکن افسوس کہ ہماری نوجوان نسل مغرب لا دینی, بے حیائی والے معاشرے کی تقلید کرنے کو اپنی منزل, اور کامیابی تصور کرتی ھے......

اللہ پاک نے انسان کو دنیا فانی میں اپنا نائب بنا کر پیدا فرمایا ھے.انسان میں ارادہ ،چاہت، خواہش ایسی حقیقتیں ہیں جن کو فطرت انسانی سے جدا کرنا بھی چاہیں تو ان کو جدا نہیں کر سکتے کیونکہ ارادہ نہ رکھنا اور اس کی صلاحیت سے خالی ہونا جمادات ونبادات کی صفت تو ہو سکتی ہے مگر اشرف المخلوقات کی ہر گز نہیں یہی ارادہ اگرمصمم بننے سے پہلے چاہتوں، ارمانوں اور خواہشات کا روپ دھارے ہوئے ہوں تو ارمانوں اور خواہشات سے انسانی زندگی میں رنگ ہے۔ کائنات میں رونق ہے۔ بلکہ یہی ہزاروں خواہشات اور رنگ برنگی لاکھوں تمنائیں ہیں جو جینے کا حو صلہ دیتی ہیں خواہشات لاتعداد ہونے کے باوجود غیر اختیاری کے زمرہ میں نہیں آتی بلکہ یہ چیز انسان کے اپنے اختیار میں ہے کہ وہ کیسی خواہشات رکھتا ہے۔ اور کیسے کیسے ارمانوں کو پال پوس کر ارادہ کی شکل دیتا ہے اور پھر ان ارادوں پر عمل کرتا ہے جن کے پودے سے ایک دن عمل کی شاخیں پھوٹتی ہیں اور قانون فطرت ہے کہ کریلے اورنیم کے بیج سے کبھی بھی کھجور وانگور کا پھل نہیں آگے گا۔ اگریہ ارادہ ٹھیک ہو گیا تو اعمال انسانی خود بخود اچھائی کے سانچے میں ڈھلتے چلے جاتے ہیں اور اگر اس کا بگاڑ دورنہ ہوا تو نیکی کی راہ مشکل ہی نیں بلکہ نا ممکن ہو جاتی ہے۔ قرآن حکیم جو کلام الٰہی ہے کتاب فطرت سے نسخہ شفاء ہے کس بلیغ انداز ہیں دعوت فکر دے رہا ہے کہ اپنی چاہت درست کر لو اپنا ارادہ ٹھیک کر لو اپنی خواہشات کا رخ صحیح کر لو، صحیح سمت متعین کر لو اور اگر ایسا نہ کیا تو ہو گا بہر حال وہی جو ہم چاہیں گے۔ جتنا چاہیں گے، جب چاہیں گے، جس کے لیے چائیں گے تو میرئے نوجوانوں جس نے اس کو سمجھ لیا اور اس پر عمل کر لیا گو یا بھلائی کی شاہ کلید اس کے ہاتھ آگئی اور خیرونیکی کا ہر دروازہ اس کے لیے وا ہوتا چلا گیا۔ غرض اس کے لیے اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کر کے ان پر عمل کرنا ہو گا اور نبی کریم ﷺ کی زندگی مبارک سے سبق حاصل کر نا ہو گا۔ کہ سرور کائناتﷺ نے نوجوانوں کی کس طرح راہنمائی فرمائی ۔ بخاری ومسلم کی ایک حدیث میں نبی کریم کا ارشاد مبارک ہے کہ وہ سات آدمی وہ ہوں گے جنہیں اللہ تعالیٰ اس دن اپنی رحمت کا سایہ عطا کرے گاجس دن اس کے سائے کے علاوہ کوئی اور سایہ نہ ہو گا۔ان میں سے پہلا امام عادل ((یعنی منصف حکمران) ہو گا اور درسرے نمبر پر آپﷺ نے فرمایا ’’وہ جوان (مرد و عورت) جس کی جوانی اللہ کی عبادت میں گزرے‘‘ اس حدیث مبارکہ میں نوجوانوں کا خصوصیت سے تذکرہ کرنے سے جوانی کی اہمیت اور قدرو قیمت ہمارے سامنے آتی ہے۔ جس سے آج کی یہ نسل جو خود کو تعلیم یافتہ کہلواتی ہے لا علم ہو چکی ہے کیونکہ تمنا ، آرزو ، ارمان،ارادہ یہ سب جوانی میں زیادہ انسان پر حاوی ہوتے ہیں اور ان کی تکمیل بھی آسان ہوتی ہے۔ لہذا اس دور میں شیطان کا سب سے کاری وار بھی نوجوانوں پر ہوتا ہے تاکہ وہ معاشرے میں تباہی اور بربادی کا باعث بنیں اور خود اسلام کی تعلیمات سے دور اندھیرے کی زندگی کا سبب بن سکیں اور عربی کا مشہور شعر ہے جس کا ترجمہ ’’بے شک جوانی ، فراغت اور طاقت انسان کے لیے کوئی نہ کوئی بڑا فساد کھڑا کر کے چھوڑتی ہے‘‘ ( ایک حدیث مرفوع میں ہے) میں تمہیں جوانوں کے ساتھ بھلائی کرنے کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ یہ نرم دل ہوتے ہیں اللہ نے مجھے بشیر او ر نذیر بنا کر بھیجا تو جوانوں نے میری مدد کی اور بوڑھوں نے میری مخالفت کی پھر آ پ ﷺ نے سورہ الحدید کی آیت پڑھی جس کا ترجمہ ہے کہ’’ پس ان پر مذمت دراز ہو گئی اور ان کے دل سخت ہو گئے اور بہت سے ان میں نافرمان ہیں‘‘ اگر تاریخ اسلامیہ کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اپنی وفات سے کچھ عرصہ پہلے ایک لشکر ترتیب دیا جس کا قائد سترہ سالہ نوجوان حضرت اسامہ بن زیدؓ کو مقرر فرمایا ۔اور مدینہ منورہ ہجرت کرنے سے پہلے جب وہاں کے لوگوں نے آپ ﷺ سے مطالبہ کیا کہ ہمارے لیے کوئی دین کا معلم مقرر فرمائیں تو آپ ﷺ نے نوجوان صحابی حضرت معصب بن عمیرؓ کو اس کی خدمت کے لیے روانہ فرمایا اور فتح مکہ کے بعد جب آپ ﷺ خود واپس مدینہ تشریف لانے لگے تو ایک نوجوان صحابی حضرت عتاب بن السیدؓ کو وہاں کا والی اور قاضی مقرر فرمایا اور آپ ﷺ کے مشہور کاتب وحی حضرت زید بن ثابتؓ بھی نوجوان تھے ، حضرت علیؓ اور حضرت معاذ بنؓ کو یمن کی طرف قاضی بنا کر بھیجا تو وہ ابھی عفوان شباب میں ہی تھے غرض یہ کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک قائد معلم ، مربی ہونے کے جوانوں کی قدر افزائی فرمائی دعوت اسلام، جنگی معرکوں اور دشمنوں پر گھات لگانے کے لیے ان کو مقرر فرمایا ۔ سرور کائنات ﷺ کے ان احکامات کی روشنی سے پتہ چلتا ہے کہ آج سے ۱۴۳۵ھ سال قبل ہی آپ ﷺ نے نوجوانوں کو اپنی خواہشات ، تمناؤں ،ا رادوں کو اسلام کے تابع کرکے اور قرآن و سنت کے مطابق زندگی گزارنے کا درس دیا ۔ ایک حدیث میں جوانی کی اہمیت واضح کرتے ہوئے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت سمجھو۔(۱) ۔ اپنی صحت کو اپنی بیماری سے پہلے۔ (۲) ۔ اپنی زندگی کو اپنی موت سے پہلے۔ (۳) ۔ اپنی فراغت کو اپنی مشغولی سے پہلے۔ (۴)۔ اپنی جوانی کو اپنے بڑھاپے سے پہلے ۔ (۵)۔ اپنی مالداری کو اپنے فُقر سے پہلے(بہقی)۔ ایک جوان صحابی خیدب بن عبداللہؓ نے اپنے حالات بیان کرتے ہوئے فرمایا ہم جس وقت رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے تو ہم بھر پور قوت والے جوان تھے پس ہم نے آپ ﷺ سے قرآن سے پہلے ایمان سیکھا ، پھر قرآن سیکھا تو اس سے پہلے ہمارا ایمان کہیں زیادہ بڑھ گیا (ابن ماجہ) ایک جوان صحابی مالک بن حویرثؓ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ہم جوان تھے ہم نے وہاں قیام کیا (بخاری)۔ مورخین لکھتے ہیں کہ جب غزوہ بدر میں عتبہ ، شیبہ اور ولید میدان میں نکلے تو مقابلے کے لیے انصار کے نوجوان نکلے اور قرآن کی سورہ الکہف اُن نوجوانوں کی تعریف و توصیف کے لیے نازل ہوئی جنہوں نے اپنا دین ایمان بچانے کے لیے گھر بار چھوڑ کر غار میں پنا ہ لی تھی ۔ قرآن میں ان کا ذکر اس طرح ہوتا ہے کہ ’’بے شک وہ کچھ نوجوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لائے ‘‘ (الکہف )۔ تاریخ اسلامیہ اس بات کی گواہی دے گی کہ جن نوجوانوں کے خیالات ، خواہشات ، تمناؤں ،ارادوں پر اسلام کی تعلیمات حاوی ہوتی ہیں اور وہ نبی کریم ﷺ کی تابع ہوتی ہیں وہ ہمیشہ اپنے خون سے گلشن اسلام کی آبیاری کرتی دکھائی دیتی ہیں ۔ وہ اپنے جذبات اپنی نوجوان صلاحیتوں اور اللہ کی دی ہوئی طاقتوں کو دین الٰہی کی توتعلیم ترویج میں خرچ کرتے نظر آتے ہیں۔اس لیے اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ ’’قیامت کے دن انسان کے قدم اس وقت تک اپنی جگہ سے نہیں ہٹ سکیں گے جب تک اس سے چار سوال نہ کر لیئے جائیں ۔ (۱)۔ عمر کس مشغلے میں گزاری؟(۲)۔ جوانی کس کام میں خرچ کی ؟(۳) ۔ مال کس طرح کمایا اور کہاں خرچ کیا ؟(۴)۔ اور اپنے علم پر کیا عمل کیا ؟(ترمذی)۔ مگر آج کا نوجوان غفلت اور کوتاہی کی وجہ سے اپنے خیالات و احساسات ، اپنی خواہشات، اپنے ارادے اور اپنی تمناؤں کو اسلام سے دور گمراہی کے اندھیروں کی نظر کرتا نظر آتا ہے اور خود جنسیات کی دلدل میں غرق ہوتا نظر آتا ہے۔آج پاکستان کو کیا بلکہ پوری امت مسلمہ کو ان نوجوانوں کی ضرورت ہے جو جوش مارتے ہوئے گرم لہو کی مانند ایک مرتبہ پھر اپنے اسلاف کی یادیں تازہ کرتے ہوئے اپنے خون جگر سے اسی بھٹکی ہوئی قوم کو زوال کی پستی سے نکال کر ترقی و عروج کی راہ پر گامزن کریں۔ اب آخر میں فیصلہ میں آج کی نوجوان نسل پر چھوڑتا ہوں کہ وہ اپنے خیالات و کمالات ، اپنی خواہشات، اپنی چاہتوں ، اپنے ارمانوں اور اپنے ارادوں کے تابع زندگی گزرانا چاہتے ہیں یا پھر ان فطرت انسانی کو اسلام کے تابع کرکے اپنی زندگیوں کو امت مسلمہ کے لیے ایک مثال قائم کرنا چاہتے ہیں ایسی مثال جو امر ہو جائے اور اپنے اسلاف کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے غیر فانی عزت اور وقا ر حاصل کرنے کے لیے اپنا تن من دھن داؤ پر لگاتے ہیں۔ یا پھر یہ نوجوان بے معنی و بیکار چندر وزہ زندگی کو اہمیت دیتے ہیں کیونکہ امت مسلمہ اپنے ناخداؤں کی منتظر ہیں اب فیصلے کی گھڑی آ چکی ہے اور تاریخ خاموش کھڑی فیصلے کی منتظر ہے۔ آخر میں دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو آپ ﷺ کے نقش مبارک پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 458879 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More