" دشت ظلمات اور ہاجرہ بے اماں "( ساتویں قسط )۔
میں کمرے میں گئی تو ہاجرہ نماز عشاء ادا کررہی تھی۔میں نے بھی نماز کے لئے
کھڑی ہوگئی ۔نماز سے فارغ ہوکر میں نے دیکھا تو ہاجرہ ابھی بھی دعا مانگ
رہی تھی۔ مجھے آج پتا چلا کہ وہ اتنی لمبی لمبی دعاوں میں رب سے کیا مانگتی
تھی ۔وہ کسی کے ایمان کی سلامتی مانگتی تھی، وہ کسی کے واپس لوٹ آنے کی دعا
مانگتی تھی۔ وہ کسی کی بے راہ روی سے نجات مانگتی تھی۔ اس کا پورا جسم مجسم
دعا بن گیا تھا۔ اس کی آنکھوں سے اشکوں کا دریا بہہ رہا تھا۔ میرا دل کٹ
گیا، بے اختیار ہی میں نے دعا کے لئے پھر ہاتھ اٹھا دئے ۔میں اللہ تعالی سے
شہزادی کا سکون مانگ رہی تھی ،کاش میں نے اللہ سے اس کی خوشی مانگی ہوتی۔
میں مریداں والی سے واپس تو آگئی مگر شاید اپنا ایک حصہ وہیں چھوڑ آئی۔ میں
واپس آئی تو سجاول اسی برائی اور بے راہ روی کے نشے میں چور ملا۔ امی نے
کوٹھی خرید لی تھی،اگلے ہفتے ہم ماموں کے گھر سے اپنے گھر شفٹ ہوگئے۔ سجاول
کی ڈگری مکمل ہوگئی تھی، اس لیے NCA میں اس کا آنا بند ہوگیا تھا ۔میں نے
بھی سکھ کا سانس لیا تھا۔
ایک سردیوں کی شام میں اچانک امی کو ایک اہم سیمنار کے لئے بھوربن جانا
پڑا، میری امی نے اپنا بزنس شروع کرلیا تھا۔ منجھلے ماموں کا سیاسی اثر
ہمارے بزنس کو بنانے میں بہت کام آیا تھا۔
میں اپنے پراجیکٹس کے باعث امی کے ساتھ نہیں جا پائی تھی ۔آج ہماری گھریلو
ملازمہ کا بیٹا چھت سے گر گیا تھا ،میں نے اسے اجازت دے دی کہ وہ اسپتال
میں بچے کے ساتھ رہے۔ شفقن بوا جو امی کی خاندانی نوکرانی تھیں وہ بھی بخار
کے باعث جلد سرونٹ کوارٹر میں چلی گئیں ۔کوٹھی کے گیٹ پر سیکیورٹی گارڈ
موجود تھا،اس لئے پریشانی کی کوئی بات نہیں تھی۔ میں باتھ روم سے نہا کر
نکلی، میں نے اپنا پسندیدہ عنابی رنگ کا ریشمئ نائٹ سوٹ پہنا، حسب عادت
Brutes کی پرفیوم استعمال کی ،ابھی میں اپنے بال خشک کرنا ہی چاہتی تھی کہ
اچانک لائٹ چلی گئی۔عام حالات میں بیک اپ جنریٹر فورا چل جاتا تھا ،مگر اس
روز نہ جانے کیوں جنریٹر نہیں چلا تھا۔ باہر طوفان کی آمد تھی ۔آسمانی بجلی
اور بادلوں کی گرج دل دہلا رہی تھی ۔میں نے بہت جتن کئے تو پھر جاکر ایک
موم بتی ملی ،میں موم بتی جلا کر living room میں پہنچی ،تو میری زوردار
ٹکر کسی سے ہوئی۔ایک لمحے کے لئے میرے آنکھوں کے آگے ستارے سے آگئے ،جب
میرے حواس بحال ہوئے تو مجھے اندازہ ہوا کہ میں کسی کے مضبوط بازوں کے حلقے
میں تھی۔ میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو وہ سجاول علی خان تھا۔ مجھے اس کی
آنکھوں میں عجب سی وحشت ناچتی نظر آئی ،اس کے منہ سے آنے والی بدبو بتا رہی
تھی کہ وہ شراب کے نشے میں دھت ہے۔ میری چھٹی حس چیخ پڑی ،میری ناموس خطرے
میں تھی۔ میں نے اپنے آپ کو سنبھالا اور تحمکانہ لہجے میں سجاول سے کہا :
سجاول مجھے چھوڑو ۔
اس نے عجیب سی نظر سے مجھے سر سے پاوں تک دیکھا اس کی آنکھوں میں ایک عجب
وحشت ناچ رہی تھی۔ اس نے میرے بالوں کو سونگھا اور مجھے مزید اپنے قریب
کرلیا۔ میرا ذہن چیخ چیخ کہہ رہا تھا۔
بانو ! بھاگ ورنہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے گی۔
میں نے اچانک زور لگا کر اس کی باہوں کا گھیرا توڑا اور باہر کی طرف دوڑ
لگائی ۔اس کا توازن ذرا بگڑا مگر وہ سنبھل کر بھوکے تیندوے کی طرح مجھ پر
جھپٹا ، میری تیز رفتاری کے باعث صرف میری گرم چادر ہی اس کے ہاتھ آئی، میں
دروازے تک پہنچی تو کسی اور سے جا ٹکرائی ، میں نے گڑگڑا کر اس لمحے اللہ
سے اپنی عزت کی حفاظت کی دعا کی آنکھ کھولی تو سامنے فیضان کو کھڑے پایا
،اس وقت وہ مجھے اپنا محافظ ،اپنی عزت کا رکھوالا لگا۔میں بے اختیار ہی اس
کے پیچھے چھپ گئی ،میرے پیچھے دوڑتے سجاول کے ہاتھ میں میری چادر اور میری
حالت دیکھ کر فیضان سمجھ گیا تھا کہ کیا طوفان آنے والا تھا اور وہ کیسے
رحمت کا فرشتہ بن کر آیا تھا۔ میں نے دیکھا ،فیضان کی آنکھیں لہو رنگ
ہوگئیں، اس نے دانت بھینچ کر سجاول کو کہا:
"فورا یہاں سے دفع ہوجاو اس سے پہلے کہ میرا ہاتھ تم پر اٹھ جائے۔"
سجاول نے جاتے ہوئے فیضان کو آنکھ ماری اور کہا:۔
"چل یار بہتی گنگا سے تو ہاتھ پہلے دھولے۔"
فیضان اس کی طرف لپکا مگر میں نے اس کا ہاتھ کس کر پکڑ لیا ،میں اس کے زور
میں کچھ دور اس کے ساتھ کھنچی گئی مگر میں نے اس کا ہاتھ نہیں چھوڑا۔ وہ بے
بس ہوکر رک گیا ۔اچانک ہی لائٹ آگئی ،میں فیضان سے دور ہوکر صوفے پر بیٹھ
گئی۔ میری حالت سوکھے پتے جیسی ہورہی تھی ۔میں ایک بہادر،کانفیڈنٹ،یورپ میں
پڑھی لکھی لڑکی تھی، میں نے "زبردستی " کے واقعات سنے تھے ،مگر میرے ساتھ
کبھی ایسا ہوگا، میں یہ نہیں جانتی تھی ۔میرا اپنا ماموں زاد ایسی جرات
کرئے گا، میں صدمے کا شکار تھی ۔میرا عکس سامنے لگے قد آدم آئینے سے چلایا:
بانو ! اب کیوں پریشان ہو ؟اسی سجاول علی خان کو تو پہلی نظر دیکھ کر تم
فریفتہ ہوگئی تھی، اسی سجاول علی خان کو تو تم اپنی خوبصورتی سے لبھانا
چاہتی تھی۔اب اگر اس نے تمھاری عزت پر شب خون مارا ہے تو کیوں پریشان ہو؟
میرا عکس میرا مذاق اڑا رہا تھا ۔میرے ذہن میں ابو کی کہی ہوئی بات
بیٹا! ہر چمکدار شئے سونا نہیں ہوتی۔
بار بار آرہی تھی، میں نے فیضان کی طرف دیکھا تو وہ مجھے دھندلا سا محسوس
ہوا، میں نے اپنی آنکھیں دونوں مٹھیوں سے ملیں مگر پتا نہیں کیوں دھندلاہٹ
بڑھتی گئی۔
مجھے جب ہوش آیا تو چمکدار صبح تھی، میں ہاسپٹل کے کمرے میں تھی۔ میری
قریبی کرسی پر فیضان آنکھیں بند کئے سو رہا تھا،اس کی شیو ہلکی ہلکی بڑی
ہوئی تھی۔ مجھے اندازہ ہوا کہ شاید مجھے ہاسپٹل پہنچے ہوئے ایک روز سے
زیادہ ہوگیا ہے ۔میرے سامنے لگے کیلنڈر نے میرے خیال کی تائید کی ۔
اچانک فیضان کی آنکھیں کھلیں مجھے جاگتا دیکھ کر اس کے چہرے پر رونق آگئی۔
وہ میرے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر بولا:
بانو میں تو ڈر ہی گیا تھا۔شکر ہے تمھیں ہوش آیا۔
میں خالی خالی نگاہوں سے اس کو دیکھتی رہئ۔بے اختیار مجھے رونا آگیا، میں
زار زار رو رہی تھی، اس نے میرے سر پر آہستہ آہستہ ہاتھ پھیرنا شروع کردیا
۔اسی وقت کمرے میں امی ابو داخل ہوئے ، وہ بہت گھبرائے ہوئے تھے، فیضان کو
میرے اتنے قریب پاکر وہ ٹھٹک گئے۔ انھوں نے آتے ساتھ سوالات کی بوچھاڑ کردی
کہ مجھے اتنا شدید نروس بریک ڈاون کیسے ہوا ہے ،فیضان انھیں سمجھا بجھا کر
کمرے سے باہر لے گیا۔ ابو جب واپس آئے تو وہ غیض و غضب سے باولے ہورہے تھے
میں نے اپنے نرم مزاج ابو کو ایسے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ان کے منہ سے کف
نکل رہی تھی۔۔انہوں نے امی کو مخاطب کرکے کہا:
تمھارا وہ ننگ انسانیت بھائی اور بھتیجے نے ملک ارمغان خان کو سمجھا کیا
ہے؟
میں نے تمھیں جائیداد میں حصہ چھوڑنے پر بازپرس نہیں کی حالانکہ اللہ اور
اس کا رسول کا حکم ہے کہ جائیداد میں بیٹیوں کا حصہ ہے۔
تمھارے بھتیجے نے ہماری عزت پر ہاتھ ڈالنے کا سوچا کیسے؟
میں تمھیں بھی طلاق دے کر تمھارے بھائیوں کے پاس بھجوا دونگا۔"
ابو اس وقت کوئی اور ہی شخص لگ رہے تھے۔ایک اور بنت حوا مرد کی جارحیت کا
شکار بننے والی تھی۔
میرا دل بہت تیز تیز دھڑک رہا تھا ۔میرے ہاتھ پیروں سے جان نکلتی جارہی
تھی۔
میرے سر میں ایسا لگ رہا تھا جیسے وحشی ڈھول بجا رہے ہوں۔ میرے پپوٹے بھاری
ہونے لگے۔ میں کب دوبارہ ہوش کھو بیٹھی، مجھے پتا ہی نہیں چلا ۔
میرے لاشعور نے خواب نگری کا دروازہ کھول دیا۔
خواب میں ہر طرف سفید دھند تھی،ایک جانب سے مجھے ہاجرہ کی جھلک دکھائی
دی۔میں اس کے پیچھے دیوانہ وار بھاگی، مگر ہاجرہ میری نظروں سے اوجھل
ہوگئی۔ میں اچانک کسی پتھر سے ٹھوکر لگ کر گر پڑی۔ میری آنکھیں خوف سے پھیل
گئیں وہ ایک قبر کا کتبہ تھا۔ جس پر
"ہاجرہ " کا نام کندہ تھا۔
میرے منہ سے ایک بھیانک چیخ نکل گئی۔ میری آنکھ کھولی تو میرے والدین،
فیضان اور ہاجرہ میرے اردگرد پریشان کھڑے تھے۔ میں بے اختیار ہاجرہ سے لپٹ
گئی،اس کو ہاتھ لگا لگا کر یقین کرنے لگی کہ میری شہزادی میری نظروں کے
سامنے موجود تھی۔
میں نے دل ہی دل میں اللہ سے منت کی ۔
یا رب مجھے کوئی دکھ مزید نہ دکھانا۔
نوشتہ تقدیر پر درحقیقت کیا لکھا تھا، میں اس سے مکمل طور پر بے خبر تھی
۔تقدیر کا فرشتہ مجھ کو رحم بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
(باقی آئندہ )☆☆☆
|