پیارے نبی حضرت محمد ﷺ نے صفائی کو نصف ایمان قرار دیا ہے
یہاں صفائی سے مراد ظاہری اور باطنی دونوں ہیں دین اسلام میں ظاہری صفائی
اور باطنی صفائی دونوں اختیار کرنے پر زور اس لیے دیا گیا کیونکہ ظاہر کا
اثر باطن پر پڑتا ہے ظاہری صفائی سے جسمانی صحت حاصل ہوتی ہے اور جب باطن
صاف ہو جائے تو انسان روحانی غلاظتوں اور کثافتوں سے پاک ہو کر اﷲ کا بندہ
بن جاتا ہے ظاہری صفائی کا مطلب یہ کہ بدن کی صفائی کے لیے غسل کرنا ،کپڑوں
کو میل کچیل سے بچانا،اُٹھنے بیٹھنے کہ جگہ سمیت گھر ،دفتر ،گلی ،محلہ کی
صفائی رکھنا جب ظاہری صفائی ہوگی تو باطنی صفائی کا حصول بھی ممکن ہو جائے
گا قرآن مجید میں ظاہری صفائی کے ساتھ دل کی صفائی اور پاکیزگی کا حکم بھی
موجود ہے ظاہری پاکیزگی کے ساتھ ساتھ روحانی پاکیزگی کا زور دین اسلام میں
بہت زور دے کر کیا گیا ہے پاکیزگی اختیار کرنے والا اﷲ تعالی کو بہت محبوب
ہے ۔سانچ کے قارئین کرام! الحمد ﷲ وطن عزیز پاکستان ایک اسلامی فلاحی مملکت
ہے جس میں بسنے والوں کی اکثریت مسلمان ہے لیکن افسوس ہمارے ہاں صفائی کی
صورتحال انتہائی خراب ہے ہم گھروں کو تو صاف ستھرا رکھنے کا بندوبست کر
لیتے ہیں لیکن گھر کے دروازے سے باہر ہم اپنی لاپرواہی سے گلی ،محلہ،سڑک ،شہر
کو صاف ستھرا رکھنے کا مناسب انتظام نہیں کرتے جس کی وجہ سے گھر کے دروازے
سے باہر نکلتے ہی گندگی ،آلودگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے گلیوں محلوں میں
کوڑا کرکٹ بکھرا نظر آتا ہے سڑکوں پر چلتے چلتے ہم کاغذ،شاپر ،پھلوں کے
چھلکے پھینکنا اور جا بجا تھوکنے کو عام بات سمجھتے ہیں شہروں میں اکثر
دوکان،مکان مالکان اپنے زیر استعمال حصہ کی صفائی کو تو عبادت سمجھتے ہیں
لیکن دوکان ،مکان کے باہر سڑک کنارے کچرا پھینکنے کے بعداُسے اُٹھانے کی
ذمہ داری انتظامیہ کی سمجھتے ہیں مانا کہ گلی،محلہ ،شہرکی صفائی کے انتظام
کو سنبھالنے کی ذمہ داری تحصیل ،ضلع کی سطح پر متعلقہ اداروں کی ہوتی ہے
لیکن کیایہاں ہماری ذمہ داریاں ختم ہوجاتی ہیں ؟کیا ہمیں اس کو مناسب مقام
پرکسی کچرا دان میں نہیں ڈالنا چاہیے ؟ سکول دفاترکے اوقات میں دوکاندار
طبقہ اپنا کچرا سڑک کنارے لگا کر اوپر پانی کا ترکاؤ کر دیتا ہے بلکہ صبح
کے وقت سڑکوں پر پانی کا ترکاؤاس حد تک کیا جاتا ہے کہ سڑک پر اور اطراف
میں پانی کھڑا ہو جاتا ہے جس سے سڑک کی ٹوٹ پھوٹ جلدہونے کے ساتھ ساتھ اس
پر سے گزرنے والی ٹریفک بھی بعض دفعہ پھسلن کے باعث کسی حادثے کا سبب بن
جاتی ہے بڑے شہروں میں تو بعض علاقوں میں انتظامیہ ایسا کرنے سے لوگوں کو
روک لیتی ہو گی لیکن چھوٹے شہروں ،قصبوں میں جہاں اگر چہ اب ہر جگہ پختہ
سڑکیں موجود ہیں وہاں ایسے پانی کے تڑکاؤ کو روکنے کا کوئی بندوبست نہیں
کیا جاتا بلکہ بعض دوکاندار تو روزانہ کی بنیاد پر دوکان سے سڑک تک اور
دائیں بائیں کئی میٹر تک ترکاؤ کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں شاید ایسے افراد
ابھی تک کچی سڑکوں پر ترکاؤ کرنے والے دور میں زندہ ہیں ۔سانچ کے قارئین
کرام ! صبح کے وقت دوکانوں کے مالکان کی جانب سے صفائی کر کے کچرا سڑک
کنارے اکھٹاکرنے اورپختہ سڑک پر پانی کے ترکاؤ بارے جب راقم نے چند
دوکانداروں سے وجہ جاننے کی کوشش کی تو اُن کا کہنا تھا کہ شام کو صفائی
کرنا ہمارے ہاں معیوب سمجھا جاتا ہے جبکہ صبح کو صفائی کر کے کاروبار شروع
کرنے سے برکت پڑتی ہے اورہم سڑک کنارے کچرا اِس لیے اکٹھا کرتے ہیں کہ
صفائی کرنے والے اداروں کے ملازمین وہاں سے اُٹھا لے جائیں، مانا کہ صفائی
کرنے والے اداروں کے ملازمین اپنے فرائض بھر پور انداز میں ادا نہیں کرتے
لیکن جب دوکانوں کی صفائی صبح آٹھ یا نوبجے ہوگی تو اُس وقت تک صفائی کرنے
والے ملازمین بازاروں ،شہروں سے کچرا اُٹھا چکے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے بعد
میں اکٹھا کیا کوڑا سارا دن وہیں سڑک پڑا رہتا ہے اُسے اُٹھانے کی باری
اگلے دن آتی ہے جس سے دن بھر پڑا کچرا سڑک پر بکھر جاتا ہے ہونا تو یہ
چاہیے کہ کوڑے دانوں میں یہ کچرا ڈالا جائے لیکن افسوس ایسا بھی نہیں ہوتا
،دوسرا صبح کے وقت یہ برکت لانے والی صفائی سکول ،دفاتر جانے والوں کا حلیہ
بگاڑنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے پختہ سڑکوں پر پانی کے ترکاؤ اور پانی
کھڑا رہنے سے جہاں سڑک جلد ٹوٹتی ہے وہیں گزرنے والوں کے لیے مسائل پیدا
بھی ہوتے ہیں اس کے علاوہ شاپر کے بے دریغ استعمال سے سیوریج کانظام خراب
ہونا معمول بن چکا ہے جس سے شہروں ،گلی ،محلوں میں صفائی کی صورتحال مزید
خراب ہو جاتی ہے قارئین کرام ! گزشتہ دنوں مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس کے
دوران ملک بھر میں قومی صفائی مہم شروع کرنے پر اتفاق کیا گیا وزیر اعظم
عمران خان نے کہا کہ صفائی کا کوئی مناسب نظام نہ ہے جس کے لیے سات اکتوبر
کو قومی صفائی مہم کا آغاز کیا جارہا ہے حکومت کا یہ اقدام انتہائی قابل
تعریف سہی لیکن ہمیں یاد رکھنا ہے کہ بطور مسلمان ہمارے دین میں صفائی کو
نصف ایمان کا درجہ دیا گیا ہے - |