ایک مُسکراہٹ اور

مُسکراہٹ کسی کی بھی حَسین لگ سکتی ہے ۔ والدین اولاد محبوب یا دوست ۔ اسی طرح حَسین کوئ بھی ہوسکتا ہے کیونکہ حُسن تو دیکھنے والے کی آنکھ میں ہوتا ہے جو شوق سے دیکھتا ہو ۔ عورت ، مرد یا حسین قُدرتی مناظر ۔
اور سب سے بڑھ کر حُسنِ اخلاق ۔

کیا کسی کی مُسکراہٹ اتنی طاقتور بھی ہو سکتی ہے کہ طوفان تھمنے لگے ِ ، دلِ مُضطرب جَم جاۓ ،زہن کی کشمکش کم ہو جاۓ اور کسی کی آنکھ نَم ہو جاۓ ۔

حامد کے ساتھ ایسا ہی ہوتا تھا ۔ اُس کے اندر غصہ کے طوفان اُٹھتے ، ادھوری محبت کا اضطراب جنم لیتا ، خواہشوں کی بھوک ، ٹوٹتی آس سے پیدا ہوتی یاس اور ایک مُسلسل پیاس جب بڑھ جاتی تو پریوں کے دیس سے بھاگی ہوئ سانولی پری نہ جانے کہاں سے نمودار ہو جاتی جس کے پاس نہ تو کوئ جادو کی چھڑی تھی اور نہ ہی کوئ قیمتی لباس کیونکہ وہ کوہ قاف کی ایک غریب بستی سے آئ تھی جس میں بستی والوں نے اُس کا جینا مشکل کر دیا تھا ۔ وہ اُس سے محنت کراتے اور معاوضہ بھی خود رکھ لیتے ۔
شائد وہ بھی مجبور تھے ۔
جو سانولی کی مجبوری اور سانولی اُن کی مجبوری تھی اور یہ جبر کا سلسلہ نہ جانے کب سے چل رہا رہا تھا ۔ اُن کے پاس جبر جبکہ سانولی کے پاس صبر تھا جس کی عاقبت کامیاب ہوتی ہے۔

سانولی کا دل حامد کے ہاں لگنے لگا تھا اور حامد کے پاس سب کچھ ہوتے ہوۓ بھی ایک چیز کی کمی تھی جو اُس نے پوری کر دی تھی ۔ایک محبت بھری مُسکراہٹ کی صورت میں جو بہت کم مقدار میں دستیاب تھی ۔ معاشی اُصولوں کے تحت اسی لئے قیمتی تھی سونے کی قیمت کی طرح ۔

سنڈریلا کی کہانی میں ایک مظلوم غریب لڑکی کی مدد کو قدرت کی بھیجی پری آتی ہی جس کے پاس سب کچھ ہے اور یہاں ایک پری جس کے پاس کچھ نہیں ، ایک ایسے آدمی کی مدد کو بھیجی جاتی ہے جس کے پاس سب کُچھ ہے۔
سانولی پری کے پاس مالی وسائل تو نہ تھے مگر اُس کے پاس دینے کو بہت کُچھ تھا ۔ اُس کے پاس دینے کو دو میٹھے بول ، محبت اور مُسکراہٹ کی طاقت اور خِدمت اور محنت کرنے کا جزبہ موجود تھا ۔

کئ محفلوں میں مصنوعی طور پر مُسکرایا جاتا ہے اور بُلند قہقہوں کی آوازیں بُلند ہو رہی ہوتی ہیں مگر حقیقت میں مَن چیخ چیخ کر کہتا ہے "میں خوش نہیں "
ان قہقہوں سے دھوکہ میں نہ آنا اور یہ کہ کر پھر دھاڑیں مار مار کر رونے لگتا ہے ۔

حامد اور سانولی کو ایک دوسرے کا کام کر کے خوشی محسوس ہوتی اور ایک دوستی اور محبت کارشتہ وجود میں آچُکا تھا جو کئ بھاری رشتوں پر بھاری تھا اور بناوٹ سے عاری تھا ۔

حامد نے اُس سے کُچھ نہیں کہا مگر شائد سانولی نے حامد کے دل کی آواز سُن لی تھی ۔ دو دل جب قریب آجائیں تو ایسا ہی ہوتا ہے -

آج وہ پھر مُسکرائی ہے ۔

آج چاندنی رات تو نہیں مگر اُس کی مسکراہٹ نے چاندنی بکھیر دی ہے ۔
رات کی سیاہی میں سیاہ کاجل والی آنکھیں بھی مُسکرارہی تھیں ۔ سانولی کی آنکھوں کی کشش اور تبسُم کی سحرش سے حامد کے دل کی بدلتی رَوِش اور خوشی میں نکلتے آنسو کی تپش سانولی کو بھی محسوس ہوئ جس میں خوشی کے ساتھ شائد اس بات کا خدشہ بھی موجود ہو کہ وہ پریوں کے دیس واپس نہ چلی جاۓ ۔

Noman Baqi Siddiqi
About the Author: Noman Baqi Siddiqi Read More Articles by Noman Baqi Siddiqi: 255 Articles with 262432 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.