ہاجرہ نے مجھے گلے لگا کر ہولے سے بولی :
"بانو مجھے معاف کردو"۔
اس کی نظریں جھکی ہوئی تھیں، مجھے اندازہ ہوا کہ اس کو حقیقت کا ادراک
ہوچکا تھا کہ میرے نروس بریک ڈاون کی اصل وجہ کیا تھی۔
میں چند دن بعد ہاسپٹل سے ڈسچارج ہوکر گھر آ گئی۔ ہاجرہ واپس مریداں والی
چلی گئی۔ فیضان میرا سایہ بن گیا تھا ۔مجھے NCA خود چھوڑتا ،خود لینے آتا
،مجھے اندازہ ہوا کہ منجھلے ماموں اور ممانی جان سے سب ناراض تھے اور ان کا
مکمل بائیکاٹ کردیا گیا تھا۔ مجھے اس دن بہت تعجب ہوا جب میںNCA سے فارغ
ہوکر نکلی تو میں نے منجھلے ماموں جان کو فیضان کے پاس کھڑے دیکھا ۔ ماموں
جان بہت ہی تھکے تھکے اور آزردہ سے نظر آرہے تھے ۔ میں دبے پاوں ان کی پشت
کی جانب پہنچی، تو میرے قدم اچانک جم گئے۔ ماموں جان رو رہے تھے، وہ فیضان
سے کہہ رہے تھے :
فیضی بیٹا! سجاول جوئے کی لت میں میری تمام فیکٹریاں ہار چکا ہے۔ اب اس کی
نظر ہمارے گھر اور تمھاری ممانی جان کے زیور پر ہے۔ بیٹا خدارا اسے سمجھاو
۔"
میرا دل پگھل گیا ،میں بے اختیار ماموں جان سے لپٹ گئی۔ ماموں جان نے مجھے
دیکھا تو میرے آگے ہاتھ جوڑ کر بولے:
"بانو بیٹا مجھے معاف کردو "۔
ان کی ہچکی بن گئی۔وہ میرے "ماما" تھے، میں نے بے اختیار ان کے ہاتھ پکڑ
لئے اور نرمی سے کہا:
"انشاءاللہ ماموں جان سب ٹھیک ہوجائے گا ۔"
وہ میری ماموں جان سے آخری ملاقات تھی ۔ صبح میں نے اخبار کھولا تو شہ سرخی
تھی مشہور سیاست دان نصیب علی خان اور ان کی اہلیہ ایک قاتلانہ حملے میں
مارے گئے ۔ میری امی تو یہ خبر سن کر دیوانوں کی طرح ننگے پاؤں اور سر ہی
ماموں کے گھر کی طرف بھاگیں ۔
منجھلے ماموں کے گھر ایک ہجوم جما تھا۔ جب اسپتال سے پوسٹ مارٹم کے بعد
لاشیں گھر پہنچیں تو میں ان کی حالت دیکھ کر لرز گئی۔قاتلوں نے ماموں اور
ممانی کو اس بے رحمی سے مشین گن سے بھونا تھا کہ ان کی لاشیں بہت بری حالت
میں تھیں ۔میرا دل تو اچھل کر حلق میں آگیا ۔آخرکار تدفین ہوگئی۔ کچھ دنوں
بعد پتا چلا کہ ماموں جان کی سیاسی گدی بطور ولی عہد سجاول علی خان نے
سنبھال لی ہے ۔یہ بھی سننے میں آیا کہ ماموں کا گھر سجاول نے بیچ دیا ہے
اور وہ کسی لگزری اپارٹمنٹ میں شفٹ ہوگیا ہے۔
میں اور فیضی ایک دوسرے کے لئے لازم ملزوم بنتے جارہے تھے۔ہماری محبت کا
درخت دن بدن تناور ہوتا جارہا تھا ۔ہم دونوں میں سے کسی نے ایک دوسرے سے
باقاعدہ اقرار نہیں تو نہیں کیا تھا، مگر فیضان میری فکر کرتا، میری حفاظت
کرتا۔
ایکب روز میں اکیلی گاڑی چلا کر لبرٹی مارکیٹ چلی آئی، شاپنگ سے فارغ ہوئی
تو رات کا اندھیرا پھیل چکا تھا، میری گاڑی کے پیچھے کچھ امیر بگڑے ہوئے
رئیس زادے لگ گئے۔وہ رفتہ رفتہ road rage میں آگئے ۔میں ان کی ریش ڈرائیونگ
اور ریمارکس سے پریشان ہورہی تھی کہ اچانک فیضان علی خان اپنی سفید پراڈو
میں پتا نہیں کہاں سے نمودار ہوا اور اس نے ہوائی فائرنگ کرکے ان بزدل
لفنگوں کو بھگا دیا ۔اس نے مجھے گاڑی روکنے کا اشارہ کیا اور مجھے اپنی
گاڑی میں بٹھا لیا۔ اس کے تیور مجھے خوفزدہ کررہے تھے ۔میں نے کچھ بولنے کی
کوشش کی ۔تو وہ سختی سے بولا:
"بی بی بانو یہ یورپ نہیں ہے جہاں آپ منہ اٹھا کر کسی بھی وقت کہیں بھی چلی
جائینگی ۔"
میری آنکھوں میں آنسو آگئے ۔وہ میرے آنسو دیکھ کر پسیج گیا۔ اس نے فرسٹریشن
میں سٹیرنگ ویل پر مکہ مارا۔پھر نرمی سے بولا:
"بانو میری جان ! تم سمجھتی کیوں نہیں کہ تم انتہائی معصوم اور دلکش ہو،
یہاں مرد نہیں جانور بستے ہیں، تم کو اکیلا دیکھ کر کوئی بھی بہک سکتا
ہے۔اگر تمھیں کوئی نقصان پہنچ گیا تو میں ساری عمر سکون نہ پا سکونگا ،تم
کیوں مجھے پھر سے تہی دامن کرنا چاہتی ہوں؟
میرا چہرہ حیا سے سرخ ہوگیا، میری جھکی پلکیں دیکھ کر فیضی کو بھی احساس
ہوا کہ آخرکار وہ مجھے بتا چکا ہے کہ میں اس کی امانت ہوں۔
اس دن کے بعد سے ہمارے بیچ ایک ان دیکھا معاہدہ ہوگیا تھا کہ میرے تمام
کام،مسائل فیضی کی زمہ داری تھے ۔
ایک صبح فیضی مجھے اخبار کی چٹپٹی خبریں سنا رہا تھا کہ اچانک اس کی آواز
بند ہوگئی اس کے جبڑے کھنچ گئے۔اس نے کرسی کو دھکا دیا اور لمبے لمبے ڈگ
بھرتا رخصت ہوگیا۔ میں حیران سی اس کے موڈ کے آف ہونے کی وجہ سوچ رہی
تھی۔میں نے گھاس پر پڑا اخبار اٹھایا اور اس پر نظر ڈالی ۔ اخبار پر سرسری
نظر ڈالتے ہوئے اچانک ٹھٹک گئی ، میری نظر کے سامنے تصاویر کے ساتھ چٹپٹی
خبر تھی کہ مشہور سیاستدان سجاول علی خان داد عیش دیتے ہوئے بازار حسن کی
مشہور طوائف مہرالنساء کے ساتھ پکڑے گئے ہیں ۔ میں نے اپنے زہن کو سجاول کی
طرف سے جھٹکا۔ میں نے نفرت سے ہونٹ سکوڑے اور اندر چلی آئی میری اور فیضی
کی ایک اچھی صبح سجاول علی خان برباد کر چکا تھا ۔ میں نے دل میں سوچا :
تم سجاول علی خان نہیں بلکہ ایک خون آشام ڈریکولا ہو۔
میں نے اپنے آپ کو کوسا میں ایک ہرجائئ کے لیے وقت خراب نہیں کرسکتی تھی۔
میں اپنی ڈگری کے حصول کے لئے بہت مصروف تھی ۔
وہ اپریل کی ایک سہانی صبح تھی، میں تیار ہوکر نیچے آئی تو سرخ گلابوں کا
ایک بوکے پایا۔ میں نے اشتیاق سے کارڈ پڑھا تو وہ فیضان علی خان کی طرف سے
Birthday wishes تھیں ۔مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ میری سالگرہ آخرکار کسی پیارے
کو یاد تھی۔کارڈ میں لکھا تھا کہ وہ شام مجھے ڈنر پر لے کر جائے گا ۔اس شام
مجھے تیار ہونے میں بہت وقت لگا۔ میں نے turquoise کلر کی میکسی پہنی، ہلکی
سی میچنگ جیولری اور میک اپ کے بعد اپنا عکس میں آئینہ میں دیکھ کر ٹھٹھک
گئی۔ شام کو سات بجے فیضان علی خان پہنچا ،پہلی بار میں نے ڈنر سوٹ میں
ملبوس دیکھا۔ بلیک ڈنر سوٹ میں فیضان کسی ہالی ووڈ کی فلم کا ہیرو لگ رہا
تھا۔ میرا دل دھڑک اٹھا ،آج کی شام "خاص" تھی۔ میرا دل گواہی دے رہا تھا
۔فیضان نے میرے لیے فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھولا ۔میں سہج کر بیٹھ گئی۔ میرا
دل گواہی دے رہا تھا کہ آج کچھ اچھا ہونے والا ہے۔
ہم ریسٹورانٹ پہنچے تو میں حیران ہوگئی ۔سارا ریسٹورانٹ دیوں اور پھولوں سے
سجا ہوا تھا۔ پورے ریسٹورانٹ میں ہمارے علاوہ اور کوئی نہیں تھا۔ میرے دل
کی دھڑکنیں اور تیز ہوگئیں ۔فیضان نے بڑا ہی lavish قسم کا آرڈر
دیا۔Appetizer سے لے کر main course تک سب بہت ہی مزیدار اور beautifully
presented تھا۔ کھانے کے اختتام پر فیضان کیک لے کر آیا، Happy birthday to
my Bano.
گا رہا تھا، کیک پر لگی موم بتیوں کی روشنی میں اس کا چہرہ چمک رہا تھا ۔اس
کی گہری نیلی آنکھیں اس کے دل کے راز کو عیاں کررہی تھیں ۔میری سانسیں رک
سی گئیں جب اس نے میرے قریب آکر کیک رکھا اور گھٹنے پر بیٹھ کر کہا:
اس بے ثبات دنیا میں شہرزاد بانو میری رفیق سفر بنو گی؟
آج مجھے اپنی خوش نصیبی پر رشک آگیا۔ عورت مرد کی صورت سے زیادہ اس کی
نرمی،اس کے تحفظ،اس کی چھاوں،اس کی چاہت سے پیار کرتی ہے۔میں نے بے اختیار
ہی اثبات میں سر ہلایا ۔آج فیضان علی خان نے مجھے میری نظروں میں اور دنیا
کے سامنے معتبر کردیا تھا۔ اس کو میرے جسم، میرے حسن سے صرف پیار نہیں تھا
بلکہ اس کا پیار "بانو" سے تھا۔ وہ میرا رکھوالا تھا ، میرا محافظ، میرا
سائیں ۔۔۔۔۔
کیا یہ شادی بانو اور فیضی کے لیے خوشیوں کی پیامبر بنے گی۔پڑھتے ہیں اگلی
اقساط میں ۔
(* باقی آئندہ )
|