سیانے کہتے ہیں الفاظ کے دانت نہیں ہوتے، لیکن یہ کاٹنے
میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ سانپ کا ڈسا تو شاید سنبھل جاتا ہے، مگر الفاظ
کا ڈسا کبھی سنبھل نہیں پاتا الفاظ کے زخم تاعمر نہیں بھرتے۔ شاید اسی لیئے
پرانے زمانے سے یہ نصیحت چلی آرہی ہے کہ پہلے تولو پھر بولو، ہو سکتا ہے آپ
کے الفاظ دوسروں کو چھوڑ کر خود آپ کو ہی ڈس لیں خود آپ کی ہرزہ سرائی کا
باعث بن جائیں۔
آج دوپہر آنجہانی میڈم نور جہاں کی مشہورِ زمانہ فلم پاٹے خان دیکھنے کا
اتفاق ہوا، فلم تو بلا مبالغہ اپنا ثانی نہیں رکھتی میڈم کی سریلی آواز کا
جادو، مرحوم عنایت حسین بھٹی کی تحریر اس فلم کو چار چاند لگادیتی ہے۔ فلم
تو خیر تھی ہی لاجواب لیکن فلم کے اک کردار پاٹے خان نے مجھے بہت متاثر
کیا، پنجابی زبان میں پاٹے خان اس شخص کو کہتے ہیں جو بولتا تو بہت اونچے
سروں میں ہے لیکن سمجھ اسے خود بھی نہیں ہوتی کہ بول کیا رہا ہوں۔
میرے بہت سے دوستوں کو یاد ہوگا کہ جب ہم آٹھ دس برس کے تھے تو سال میں
کبھی کبھار گھر کے بازو والے احاطے میں جسے ہم عرف عام میں دارو والا دالان
کہتے تھے ( اس دالان کی الگ کہانی ہے انشاء اللہ پھر موقعہ ملا تو سنائوں
گا ) اک پتلی تماشے کا انعقاد ہوتا تھا۔
سرِشام پتلی تماشا دکھانے والوں کی منڈلی آ جاتی تھی۔انکے سامان میں لکڑی
کا ایک بڑا سا صندوق ہوتا تھا جس میں رنگ برنگی کٹھ پتلیاں ہوتی تھیں۔تین
چارپائیاں اور کچھ رنگ برنگی چادریں اور منڈلی میں شامل ادھیڑ عمر کی واحد
عورت کے پاس ایک ڈھولکی بھی ہوا کرتی تھی۔
یہ منڈلی تینوں چارپائیاں کھڑی کرکےان پر چادریں تان کر جھٹ پٹ ایک اسٹیج
سا بنا دیتی تھی۔چادروں کے پیچھے پتلیوں کی ڈوریں ہلانے والے دو آدمی بیٹھ
جاتے تھے ان کے پاس چوں چوں کی آواز نکالنے والی سیٹیاں بھی ہوتی تھیں۔اور
وہیں کہیں ڈھولکی بجانے والی عورت بھی براجمان ہو جاتی۔
جب بچے قطاروں میں مؤدب بیٹھ جاتے اور ان قطاروں کے پیچھے محلے کے فارغ
البال اور سر کردہ معززین اپنی اپنی نشستیں سنبھال لیتے تو ڈھول کی تھاپ پر
ایک لوک گیت سا فضا میں بکھرتا اور ایک کے بعد ایک پتلی اوپر سے اسٹیج پر
اتاری جاتی۔ پہلے یہ پتلیاں خوب ناچتیں اور پھر انکے درمیان مزاحیہ مکالمے
بازی ہوتی۔ مکالمے اگرچہ اسٹیج کے پیچھے سے ڈوریں ہلانے والے آوازیں بدل
بدل کر بولتے لیکن وہ پتلیوں کو اس مہارت سے حرکت میں رکھتے جس سے مستقل یہ
دھوکا رہتا گویا پتلیاں خود بول رہی ہوں۔
ہر پتلی کا اسکے کردار کے اعتبار سے الگ الگ نام بھی ہوتا تھا۔ لیکن سب سے
اہم پتلی کا نام پاٹے خان تھا۔ باقی پتلیاں پاٹے خان کے ذیلی کرداروں کے
طور پر اچھلتی کودتی اور بولتی تھیں۔ یہ گیتوں اور باتوں بھری دھما چوکڑی
کوئی گھنٹے بھر تک جاری رہتی اور تماشے کے اختتام پر منڈلی کا ایک آدمی ہیٹ
یا جھولی پھیلا کر ہر بچے کے سامنے سے گزرتا۔ بچے اس ہیٹ یا جھولی میں ایک
دو روپے کا سکہ ڈالتے جاتے۔
وقت بدل گیا۔ پتلی تماشا دکھانے والی منڈلیاں تیزی سے بدلتے زمانے کی دھول
میں گم ہوتی چلی گئیں۔ لیکن انکی جگہ ایک بڑی اور منظم منڈلی نے لے لی۔
پتلی تماشا اب بھی ہوتا ہے لیکن ہر سال نہیں بلکہ ہر چند سال بعد۔ پاٹے خان
کا جو پتلی تماشا ایک ایک دو دو روپے جمع کرکے دکھایا جاتا تھا اب یہی
تماشا زیادہ بڑے پیمانے پر ایک ایک ووٹ جمع کرکے دکھایا جاتا ہے۔ پاٹے خان
کی منڈلی بھی خوش۔ تماشا دیکھنے والے بھی راضی باضی ، اس مرتبہ جو پاٹے خان
اپنے ساتھ تبدیلی کی ہوا لے کر لوگوں کا دل بہلانے آیا تھا۔لگتا ہے یہ
تبدیلی اک تند وتیز گرد آلود طوفان بد تمیزی میں بدلتی جارہی ہے۔ تبدیلی کے
آغاز میں ہی لوگ اس سے بیزاری اور اکتاہٹ کا اظہار کرتے نظر آرہے ہیں، اللہ
تبارک و تعالیٰ اس مظلوم قوم کو ہر طرح کے شر سے بچائے اور ان کی امید
سلامت رکھے۔
یہ سب حالات دیکھ کر مجھے وہ مشہور قول یاد آرہا ہے کہ
عقلمند ہمیشہ بولنے سے پہلے سوچتا ہے اور
بیوقوف ہمیشہ بول کر سوچتا ہے
خدارا بولنے سے پہلے سوچیں ، پہلے تولیں پھر بولیں تاکہ بعد میں سبکی اور
رسوائی نہ ہو۔
پاکستان پائندہ باد!
|