عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَؓأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ
قَالَ:حَقُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ سِتٌّ. قِيلَ مَا هُنَّ يَا
رَسُولَ اللَّهِ قَالَ:۔۔۔وَإِذَا مَرِضَ فَعُدْهُ۔۔۔(مسلم:۵۷۷۸)ابوہریرہ
رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سےروایت ہےکہ اللہ کے رسول ﷺنےارشادفرمایاکہ:ایک مسلمان
کادوسرےمسلمان پرچھ حقوق ہیں ،آپ سے پوچھا گیاکہ وہ کیاہیں؟۔۔۔(۵)جب وہ
بیمار ہوجائے تو اس کی عیادت کرو۔
مذہب اسلام ایک ایسا جامع اور آفاقی وہمہ گیر مذہب ہے جو دنیا کے تمام
انسانوں کو بلا تفریق مذہب وملت آپس میں بھائی بھائی بن کررہنے کی تلقین
کرتاہے ،آپس میں میل محبت کے ساتھ رہنے اور باہمی حقوق کی ادائیگی کا حکم
دیتاہے اور ساتھ ہی باہمی ،اخلاقی اور رواداری کی تعلیم دیتاہے اورملک
وسماج میں رہتے ہوئے ہر فردبشر کے دکھ درد میں شرکت کی تاکید کرتاہے۔یہی
وجہ ہےکہ اللہ کے رسول ﷺ نےفرمایا کہ ’’ جو اپنے کسی مسلمان بھائی کے
دنیاوی رنج والم کو دور کرتاہے تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں اس شخص کو
قیامت کی تکالیف میں سےکسی تکلیف کو دور کردیتاہے‘‘ ،چنانچہ اگر ہمارا کوئی
بھائی ،دوست اور پڑوسی بیمارہو تواس کی عیادت کرنا ہمارادینی واخلاقی فریضہ
ہےجو مریض کے تکلیف کو دور کرنےاوراس کی غمگساری وسکون قلب کا ذریعہ اورسبب
۔
چنانچہ اسلام کی خصوصیات اور مسلمانوںکےباہمی حقوق میںسےاہم خصوصیت
اورپانچواںحق ایک بیمار مسلمان کی عیادت کرنااوراس کی مزاج پرسی
کرناہے،جوبڑےاجر وثواب کاعمل ہےجس سےاللہ راضی اورخوش ہوتاہےاورایسا خوش
نصیب اگرصبح کوکسی مریض کی عیادت کرتاہےتوشام تک اوراگرشام کوعیادت
کرتاہےتوصبح تک جنت کےباغات اورکیاریوںمیں ہوتاہےنیزاس
کےلئےسترہزارفرشتےرحمت وبرکت کی دعائیںکرتےہیں۔ جیساکہ حضرت ثوبان رضی اللہ
عنہ کی روایت کردہ حدیث میںہےکہ نبی کریم ﷺنےارشادفرمایا:جب کوئی مسلمان
اپنےکسی مسلمان بھائی کی بیمارپرسی (عیادت)کرتاہےتووہ مسلسل جنت کےباغات
میںرہتاہے(مسلم)یہی وہ فضیلت ہےجس کی وجہ سے نبی کائنات ﷺنےصحابۂ کرام اور
امت محمدیہ کواس بات کی تعلیم اور حکم دیاہے۔حضرت براءبن
عازبbفرماتےہیںکہ’’رسول اللہﷺ نےہمیںمریضوںکی عیادت کاحکم دیاہے‘‘۔
(بخاری:۵۶۳۵،مسلم :۲۰۶۶)اورابوداؤدمیںابوموسیٰ اشعریbسےروایت ہےکہ رسول
اللہ ﷺنےفرمایا’’بھوکےکوکھاناکھلاؤ،مریض کی عیادت کرواورقیدی
کورہاکرو‘‘۔(ابوداؤد:۳۰۱۵)
ان واضح دلائل وفضائل کےبعد اگرکوئی انسان کسی مریض کی عیادت کرتاہےتواللہ
اس سےبہت خوش ہوتاہےاوراس کےحسنات میں اضافہ نیز درجات کوبلند
فرماتاہے۔لیکن جولوگ وسعت وطاقت کےباجود مریضوںکی عیادت نہیںکرتےایسےبدنصیب
اسلام کی ایک اہم صفت سےکنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے مسلمانوں کے آپسی حقوق
سےروگردانی کرکے ان فضائل سےمحروم ہوتےہیں جن کاکتاب وسنت کےاندر
ذکرکیاگیاہے۔چنانچہ ایسے ظالموںوبدنصیبوںسےکل قیامت کےدن رب العالمین سوال
کرےگاکہ :اے بنی آدم!میںبیمار ہواتھالیکن تونےمیری عیادت نہیںکی ،بندہ
کہےگااےاللہ!توتوسارےجہان کاپروردگارہےمیںتیری عیادت کیسےکرتا؟اللہ
فرمائےگا:کیاتم کومعلوم نہیںتھاکہ میرافلاںبندہ بیمارہواتھالیکن تم نےاس کی
عیادت اورمزاج پرسی نہیںکی ،کیاتمہیںمعلوم نہیںتھاکہ اگر تواسکی عیادت
اوربیمارپرسی کرنےجاتاتومجھےاس کےپاس پاتا۔(مسلم:۲۵۶۹)
مذکورہ نصوص سےیہ بات اچھی طرح واضح ہوتی ہےکہ مذہب اسلام میںایک مسلمان کی
خیرخواہی اور معاشرہ وسماج میں الفت ومحبت کی فضاہموار کرنےاورآپسی بھائی
چارگی کوفروغ دینےنیزباہمی حقوق کی ادائیگی اور اجروثواب حاصل کرنےکی
خاطرایک مریض کی عیادت کی تلقین کی گئی ہےاور اس کےفضائل کوبیان
کیاگیاہے۔لیکن یہ بات ہمیشہ ذہن نشین ہونی چاہئےکہ اسلام میںجتنی فضیلت
بیمارپرسی کی بیان کی گئی ہےاس سےکہیں زیادہ اس بات کی تلقین کی گئی کہ آپ
کےکسی طرز عمل سےمریض کویااس کےاعزہ واقارب کوذرہ برابر بھی تکلیف نہ
پہنچے،خصوصااگرمریض سےملاقات کرنامشکل ہو یاکسی خطرےوپریشانی کاشبہ
ہوتوایسی صورت میںملاقات سےکنارہ کشی اختیارکرنی چاہئےاور وہاںموجود اشخاص
واحباب سےسلام، دعااوراحوال وخیریت معلوم کرکےواپس آجاناچاہئےنیزمریض کےحق
میںکثرت سےدعائیںکرنی چاہئےاوراسکی کمیوں،برائیوںوغلطیوںکی پردہ پوشی
کرکےاعمال حسنہ کوبیان کرناچاہئےاوراسکی شفایابی کےلئےرب العالمین سےکثرت
سےدعائیں کرنی چاہئے،جیساکہ نبی کریمﷺ اورصحابہ کااسوہ وطریقہ تھا۔چنانچہ
حضرت عبد اللہ ابن عمرdسےروایت ہےکہ جب بیمار پرسی کےلئےجاؤ توبیمارکےپاس
یہ دعاپڑھو’’اللَّهُمَّ رَبَّ النَّاسِ أَذْهِبِ الْبَاسَ اشْفِهِ
وَأَنْتَ الشَّافِي لاَ شِفَاءَ إِلاَّ شِفَاؤُكَ شِفَاءً لاَ يُغَادِرُ
سَقَمًا‘‘(بخاری:۵۷۴۳)
دعاہےکہ مولیٰ ہمیں اپنےمسلمان بھائیوں کی خلوص وللہیت کےساتھ خیرخواہی
کرتےہوئےان کی عیادت ومزاج پرسی کرنےکی توفیق عطا فرما اور جولوگ بیمار ہیں
انہیں شفا ءکلی عطافرما۔آمین! |