لاہور ہائیکورٹ کے حکم کے مطابق 23 ستمبر سے ہیلمٹ نہ
پہننے والوں اور ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف بلا تفریق
سخت کاروائی کا آغاز کر دیا گیا ہے ۔چونکہ گذشتہ کئی دہائیوں سے ٹریفک
حادثات کے نتیجے میں زخمی اور جاں بحق ہونے والوں کی تعداد میں خاطر خواہ
اضافہ ہوا ہے اسی لیے ٹریفک قوانین پر سختی سے عملدرآمد کو یقینی بنانا
مجبوری بن گیا ہے۔ دنیا کے کچھ حصوں میں ہیلمٹ پہنناقانوناً ضروری ہے اور
اس کے نہ پہننے پر مالی جرمانہ عائد کیا جاتا ہے تاہم بیشتر ممالک میں
ہیلمٹ پہننا تاکیدی حیثیت رکھتا ہے جبکہ ہیلمٹ پہننے کی پابندی نہیں ہے
۔پاکستان میں کراچی ٹریفک پولیس نے ہیلمٹ نہ پہننے والوں کے خلاف ستمبر2017
میں کاروائی شروع کی اور چالان بھی کئے اور ایسی ہی کاروائیاں دوسرے شہروں
میں بھی کی گئیں مگر زیادہ سے زیادہ چالان دو سو روپے کا ہوتا تھا جو کہ
کسی پر بار گراں نہیں گزرتا تھا اور اس کا یہ فائدہ بھی تھا کہ چالان کرنے
والے اہلکاران اگر کرپشن کرنے کا ارادہ بھی کرتے تو دو سو کے چالان میں سے
کیا لیتے جبکہ ملزم کو سرزنش ہو ہی جاتی تھی اور اس راہ جاتے چالان کرنے کے
بہانے کو سادہ لوح ملزم شہری اپنے ساتھ زیادتی قرار دیتے تھے ۔ اب جبکہ
جرمانے کی حد بے انتہا بڑھا دی گئی ہے تو اب لاہور کے تمام شہری اس بے
انتہا زیادتی کو اپنے اوپر ظلم قرار دے رہے ہیں ۔دانشوروں کا کہنا ہے کہ
اگر واقعتاً یہ ظلم ہے تو پھر اس کی حد بے شک اور زیادہ بڑھا دیں کیونکہ
:’’ ظلم کا حد سے گزرنا ہے دوا ہوجانا ‘‘۔مگر۔۔ اگر میں خدا لگتی لکھوں تو
پھر مناسب یہ ہے کہ بے شک چالان کی رقم سابقہ ہی رہنے دی جائے مگر ایک
چالان چھ گھنٹے کے لیے یا جو بھی مناسب سمجھا جائے اتنے وقت کے لیے قرار
دیکر اس کے بعد بھی اگر کوئی کوتاہی کرتا پکڑا جائے تو اس کا اگلا چالان
کاٹ دیا جائے مگر جو حد موجودہ مقرر کی گئی ہے وہ صریحاً ظلم ہے بریں وجہ
اس سے ہر کوئی سراپا احتجاج بنا ہوا ہے اور مجموعی طور پر یہ خبر موجودہ
حکومت کے آج اور مستقبل کے لیے سوائے لوٹ مار کی ایک قسم قرار دینے کے کچھ
نہیں کہا جا سکتا ۔اس حد سے تجاوز کئے ہوئے کالے قانون کی اگر حکومتی ادارے
ترمیم نہیں کرتے تو جناب چیف جسٹس صاحب ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کو فوری
طور پر نوٹس لینا چاہیے کیونکہ بہترین قوانین وہی ہوتے ہیں جو عوام کے وسیع
تر مفاد میں ہو تے ہیں ۔یہ بات کتنی مضحکہ خیز ہے کہ ایک طرف حکومت نا جائز
تجاوزات کو گرا رہی ہے جو کہ شہریوں کی طرف سے قائم کئے گئے ہیں اور دوسری
طرف اپنے اداروں کے بنائے ہوئے ایسے قوانین جن کو اگر کسی مناسب حد میں
نافذ کیا جائے تو قابل تعریف ہیں لیکن اگر وہی عوام الناس کے لیے انتہائی
اذیت ناکی اور مالی بحران کا سبب بن رہے ہیں تو وہ یقینا حق سے تجاوز ہے
۔حکومت کو چاہیے کہ ازخود ان تجاوزات کو بھی گرا دے ورنہ یہ تو وہ بات ہوئی
کہ :
’’ بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا ۔۔ جو چیر ا تو ایک قطرہء خوں نہ نکلا
‘‘۔ تجربہ کار ٹیم کا طعنہ دینے والوں اور غریبوں کی ہمدردی کے دعوی داروں
(تبدیلی سرکار) نے پہلے بجلی ،گیس اور اشیائے خوردونوش کے نرخ بڑھا کر غریب
عوام کو مایوس کیا اور اب ہیلمٹ اور ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کی مد میں
بھاری بھرکم جرمانوں سے عوام الناس کو پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے ۔لینن
نے سچ ہی کہا تھا کہ’’ لوگ ہمیشہ سیاسی طور پر بیوقوف بنائے جاتے ہیں اور
تب تک بیوقوف بنتے رہیں گے جب تک وہ ہر سیاسی اور مذہبی تحریک کے پیچھے
موجود طبقاتی مفادات کو نہ سمجھ لیں ۔‘‘
فی زمانہ اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ ٹریفک قوانین کی پابندی مہذب
اقوام کا شعار ہے اور اپنی زندگیوں کو محفوظ بنانے کے لیے ہمیں ٹریفک
قوانین کی پابندی کرنی چاہیے مگر زمینی حقائق کو بھی یکسر نظر انداز نہیں
کیا جا سکتا کہ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے جہاں کی چھیاسٹھ فیصد آبادی
نا خواندہ ہے اور بیس فیصد اشرافیہ میں شمار ہوتے ہیں پیچھے صرف 14% فیصد
بچتے ہیں جو کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور قوانین کی سوجھ بوجھ رکھتے ہیں
اور ان کے تقاضوں کو بھی پورا کرتے ہیں جبکہ یہاں بے تحاشا ایسے بھی قوانین
موجود ہیں جن پر عملدرآمد کہیں بھی نظر نہیں آتا اورارباب اختیارقانونی
گرفت کو ’’ سسرالی دعوت ‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں بلکہ جیل میں گزارے ہوئے ایام
کو فخریہ بیان کرتے ہیں کبھی ڈھیل اور کبھی ڈیل کے نام پر انھیں چھوٹ مل
جاتی ہے اور یہ سلسلہ تاحال رکتا نظر نہیں آرہا ہے حالانکہ خان صاحب کا
نعرہ تھا کہ وہ اشرافیہ کو قانونی دائرے میں لائیں گے اور عبرت ناک سزائیں
دیں گے مگر آج عوام کہہ رہے ہیں کہ : ’’وہ آئیں تو سر مقتل تماشا ہم بھی
دیکھیں گے ‘‘ ۔
ان گو مگو حالات میں اگر کہا جاتا ہے کہ دنیا کے بیشتر ممالک میں ٹریفک
قوانین کی پابندی ہو رہی یہی وجہ ہے کہ حادثات کم ہوتے ہیں تو ایسا خود
بخود تو نہیں ہوگیا ہے بلکہ ایک طویل تجربے کے ذریعے بلا تفریق عوام کو اس
مقام پر لایا گیا ہے کہ وہاں کے شہری اب محتاط ڈرائیونگ کرتے ہیں اورٹریفک
قوانین کی پابندی کا شعور رکھتے ہیں اور کم لوگ خلاف ورزی کرتے ہیں حالانکہ
سڑکوں پر کہیں کوئی سارجنٹ یا پولیس ہلکار کھڑا نہیں ہوتا بس سگنل اور
ٹریفک اشارے ہوتے ہیں اورخلاف ورزی کی صورت میں پرچی چالان گھر بھیج دیا
جاتا ہے جبکہ ہمارے ملک میں ٹریفک پولیس جگہ جگہ موجود ہوتی ہے اور تاک میں
رہتی ہے اکثر غلطی نہ ہونے کی صورت میں بھی چالان کاٹ دیا جاتا ہے بعد ازاں
چند سو پر معاملہ نپٹ جاتا ہے اسی مک مکائی نے قوانین کا مذاق بنا رکھا ہے
کہ غریب پھنس جاتا ہے جبکہ امیر دے دلا کر نکل جاتا ہے ۔تھانہ کلچر کو درست
کئے بغیر اور بلا تفریق انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائے بغیر عوام الناس سے
فوری طور پر نظم و ضبط کا مطالبہ اور سخت جرمانے دانشمندانہ فیصلہ نہیں ہو
سکتا ۔
ویسے بھی ہمارے ملک میں جس حساب سے مہنگائی بڑھ رہی ہے اسی حساب سے غربت کا
تناسب بھی بڑھتا جا رہا ہے ۔ ایسے میں بھاری جرمانے ادا کرنا متوسط طبقے کے
بس کی بات نہیں ہے اور ضروری تو نہیں کہ کوئی دیدہ و دانستہ غلطی کرے بلکہ
بھول چوک سے بھی ہو سکتا ہے ایسے میں اگر آٹھ یا دس ہزار کمانے والا غریب
مزدور 5000 یا 10000 جرمانہ ادا کر دے گا تو پورا مہینہ اس کا گھر کون
چلائے گا ؟ بے رحم مہنگائی، بے جا پابندیوں اور بھاری بھر کم جرمانوں سے نو
منتخب حکومت کے لیے عوام الناس میں نفرت کے جذبات پھیل رہے ہیں۔مناسب یہ
تھا کہ پہلے ایک سال لوگوں کو تربیت دی جاتی ،ر ٹریفک سگنلز سے آگاہی مہم
چلائی جاتی اوراس کے بعد ایسے سخت قوانین لاگو کئے جاتے مگر ہمیشہ کی طرح
یہ فیصلہ بھی عجلت میں کیا گیا ہے اس کا جلد یا بدیر حکومت وقت کو احساس ہو
جائے گا ۔کیونکہ جس نگری میں عقل اور شعور گھنگھرو باندھ لیں وہاں بھوک
نہیں ناچتی ،نفس ناچتا ہے ،ایمان ناچتا ہے ،انسانیت ناچتی ہے اور پھر دنیا
تماشا دیکھتی ہے ۔بایں ہمہ مبصرین اور اپوزیشن کی طرف سے حکومتی اصلاحات
اور طرز حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا گیا کہ آسانیوں کا راگ آلاپنے والوں کا ہر
فیصلہ غریبوں کو نڈھال کر رہاہے فواد چوہدری چیخ اٹھے کہ’’ اپوزیشن تنقید
مت کرے بلکہ بحرانوں سے نکلنے کا حل بتائے ‘‘ ۔ اب تو وطن کی فضائیں بھی
کہہ رہی ہیں :’’اے صنم کچھ تو نیا کرتے ۔۔بھول جانا تو سبھی کو آتا ہے ‘‘
نو منتخب حکومت نے بھی وہی کیا ہے جو ہمیشہ سے ہوتا چلاآرہا ہے کہ جمعہ
جمعہ آٹھ دن نہیں ہوئے اور واویلا شروع کر دیا ہے کہ پچھلی حکومت نے کچھ
نہیں چھوڑا ، ادارے تباہ ہیں ، ملک دیوالیہ ہے ،ملکی خزانہ خالی ہے ،
تھرپارکر میں قحط سالی ہے ، پانی کے لیے ڈیم نہیں ہیں تو ایسے میں ہم کیا
کریں۔۔؟ یعنی مہنگائی کا ایٹم بم عوام پر کیوں نہ گرائیں ۔۔؟
بہر حال تبدیلی سرکار نے ا بھی تک بنیادی مسائل میں سے کسی کو حل تونہیں
کیا البتہ وزیراعظم ہاؤس کی بھینسیں ضرور دوگنی قیمت پر بیچ دی ہیں ،گاڑیاں
بیچ دی ہیں ،گورنر ہاؤس کو عام عوام کے لیے کھول دیا ہے ۔اس خریدو فروخت سے
عوام کو کیا فائدہ ہوا ہے اوراگر ہزاروں ٹن گندم افغانستان کو خیر سگالی کے
لیے بھیجی ہے تو اس سے کیا ہوگا۔۔؟ مگر افسوس اس بات کا ہے کہ گندم بھیجتے
ہوئے مفلوک الحال غریب تھرکے بھوکے بچے یاد کیوں نہیں آئے ۔؟ اپنے بھوک سے
مر رہے ہیں اور دنیا سے واہ وائی بٹورنے کی پڑی ہے ۔ایسے ہی بے شمار مسائل
قابل توجہ ہیں جنھیں پس پشت ڈال کر نان ایشوز کو بیان کیا جاتا ہے ۔افلا
طون نے کہا تھا کہ دنیا میں سب سے زیادہ نفرتوں کا سامنا سچ بولنے والوں کو
کرنا پڑتا ہے مگر اس کے باوجود دنیا کبھی بھی سچ لکھنے اور بولنے والوں سے
خالی نہیں رہی اور کہنے والے ڈنکے کی چوٹ پر کہتے رہے ہیں :
اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکم اذا ں ۔۔۔۔۔ لالہ الااﷲ
مجھے کہنے دیجئے کہ لاقانونیت کو عام کرنے کا سہرا بھی قانون بنانے والوں
کے سر سجا ہوا ہے۔ حکومت کا فرض ہے کہ اگر کوئی فرد قوانین سے رو گردانی
کرے تو اسے عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کر کے سزا دلوائیں اب ہوتا یوں ہے کہ
دو روپے کی روٹی چرانے والے کو تو گرفتار کر کے عدالت میں پیش کر دیا جا تا
ہے اوروہ جیل کی بند کوٹھریوں میں بند ہو جاتا ہے اور اس کی ضمانت بھی
عدالتیں نہیں لیتیں مگر کروڑوں چوری کرنے والوں اور سنگین قسم کے عوامی اور
قومی جرائم کرنے والے با اثر افراد کو عدالتوں اور کچہریوں میں کھجل خراب
کر کے نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلتا اوربیچارے غریب مدعی کو ڈرا دھمکا کر خاموش
کروا دیا جاتا ہے ۔ کسی نے سچ کہا تھا کہ :’’میں وقت کی چوکھٹ پر کھڑا دیکھ
رہا ہوں ۔۔انسان کے کردار سے انسان خفا ہے ‘‘۔یہی وجہ ہے کہ اخلاقی اور
سماجی جرائم کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو چکا ہے ۔آپ قوانین کے نفاذ
کے لیے عملی کوشش کریں بلاشبہ یہ احسن اقدام ہے اور وقت کی پکار ہے مگر بے
رحم احتساب اور فرعونیت سے بچیں کیونکہ نوزائیدہ حکومت سخت اقدام کی متحمل
نہیں ہو سکتی اور نہ ہی غریب عوام ترقی یافتہ ممالک کی طرح بھاری بھرکم
جرمانے ادا کر سکتے ہیں ۔ایسا محسوس ہوتا ہے جیساکہ ریاست مدینہ کی مثال
دینے والوں نے بھلا دیا ہے کہ: ’’سب تماشائے کُن ختم شُد۔۔ کہہ دیا اس نے
بَس ۔اور بَس ‘‘۔۔!
بعض لوگ فجر تک جاگتے ہیں اور بعض فجر کے لیے جاگتے ہیں ۔کچھ لوگوں کو فجر
کے وقت نیند نماز سے بہتر لگتی ہے جبکہ کچھ لوگوں کو نماز نیند سے بہتر
لگتی ہے ۔یاد رکھیں کہ حقیقی کامیاب وہی لوگ ہیں جو اپنی خواہشات ، ضروریات
اور دنیاوی مفادات کو قربان کر کے اﷲ کے حکم پر عمل پیرا ہوتے ہیں اور پھر
بھی اپنی عبادات پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ اﷲ کے بندوں سے حسن سلوک کرنے اور
رحم کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
کرو مہربانی تم اہلِ زمیں پر۔۔۔خدا مہرباں ہوگا عرشِ بریں پر ! |