اگلا شخص پولیس کا ایک سینئر
افسر تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے مخاطب ہی نہیں کیا۔ اس کے ساتھ آنے والے
فرشتے سے پوچھا کہ اس کے نامۂ اعمال میں کیا درج ہے ۔ اس کے جواب میں فرشتے
نے اس کی ساری زندگی کے جرائم بیان کر دیے ۔ جن میں بے گناہ لوگوں پر ظلم،
بعض معصوموں کا قتل، جوئے اور بدکاری کے اڈوں کی سرپرستی، بدکاری اور شراب
نوشی، رشوت اور عیاشی جیسے سنگین جرائم شامل تھے ۔ جبکہ نیکیوں میں صرف عید
کی وہ نمازیں تھیں جو حالت مجبوری میں حکمرانوں کے ساتھ عید گاہ میں ادا کی
جاتی تھیں ۔
پوچھا گیا:
’’تمھیں اپنی صفائی میں کچھ کہنا ہے ۔‘‘
اس نے کہا:
’’پروردگار! میرے حالات ہی ایسے تھے ۔ ہر طرف رشوت کا ماحول تھا۔ میں یہ سب
نہیں کرنا چاہتا تھا مگر افسران کا دباؤ اور ماحول کے جبر کی بنا پر مجبور
ہو گیا۔‘‘
انتہائی سخت آواز میں کہا گیا:
’’تو تم مجبور ہوگئے تھے ؟‘‘
پھر حکم ہوا کہ اس کے ماتحت کام کرنے والے ایک جونیئر افسر کو پیش کیا جائے
۔ تھوڑ ی ہی دیر میں ایک انتہائی خوش شکل شخص بہت اعلیٰ اور نفیس لباس زیب
تن کیے ہوئے حاضر ہوا۔ اس سے پوچھا گیا:
’’میرے بندے تو نے بھی پولیس میں کام کیا۔ پھر ماحول سے مجبور ہوکر ظلم اور
رشوت کا راستہ کیوں اختیار نہیں کیا؟‘‘
اس نے جواب دیا:
’’میرے رب مجھے آج کے دن تیرے حضور پیش ہونے کا اندیشہ تھا۔ اس لیے میں نے
کبھی رشوت نہیں لی۔ جب ساتھ کام کرنے والوں نے مجھے مجبور کیا تو میں نے
صاف انکار کر دیا۔ میں نے ساری زندگی بہت غربت کی زندگی گزاری لیکن کبھی
پیسے لے کر انصاف کا خون نہیں کیا۔‘‘
جواب ملا :
’’ہاں ! اسی کا بدلہ ہے کہ تیرے بہت کم عمل کو میں نے بہت زیادہ قبول کیا
ہے اور تجھے ہمیشہ رہنے والی جنت کی سرفرازی نصیب کی ہے ۔‘‘
پھر دوسرے پولیس والے سے کہا گیا:
’’تیرے پاس انتخاب یہ نہیں تھا کہ تو رشوت، ظلم اور زیادتی کے راستے پر چلے
یا غربت کی زندگی گزارے ۔ تیرے پاس انتخاب یہ تھا کہ ظلم کرے یا جہنم میں
جائے ۔ سو تو نے جہنم کو پسند کر لیا۔ یہی ہمیشہ کے لیے تیرا بدلہ ہے ۔‘‘
وہ پولیس والا ہار ماننے کے لیے تیار نہ تھا۔ وہ روتے ہوئے کہنے لگا:
’’پروردگار! مجھے شیطان نے گمراہ کیا تھا۔‘‘
جواب ملا:
’’نہیں ! اصل میں تو خود ایک شیطان تھا۔ حالانکہ تو میرے سامنے ایک معمولی
چیونٹی سے زیادہ بے بس تھا۔ اے بے وقعت انسان! جس وقت تو انسانوں پر ظلم
کرتا تھا تو اس وقت بھی تو میرے سامنے ہوتا تھا، لیکن میں نے تجھے مہلت دی۔
تو نے اس مہلت سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ تو نے یہ سمجھا تھا کہ تجھے میرے حضور
پیش نہیں ہونا۔ دیکھ تیرا گمان غلط ثابت ہوا۔‘‘
اِدھر غیض و غضب کے یہ الفاظ بلند ہورہے تھے ، اُدھر میدان حشر کے بائیں
جانب سے جہنم کے شعلوں کے بھڑ کنے کی آوازیں تیز ہورہی تھی۔ ان کی آوازوں
نے ہر دل کو لرزا کر رکھ دیا تھا۔ ہر شخص پر سخت ہول کا عالم طاری تھا۔
کلیجے منہ کو آ رہے تھے ۔ آنکھیں پھٹی ہوئی تھیں ۔ لوگوں کے چہرے بالکل
سیاہ پڑ چکے تھے ۔ دل کی دھڑ کنیں اتنی تیز تھیں کہ گویا دل سینہ توڑ کر
باہر نکل آئے گا۔ مگر آج کوئی جائے فرار نہ تھی۔ ایک مجرم کا فیصلہ ہورہا
تھا اور دیگر مجرموں کی حالت خراب ہورہی تھی۔ وقت کے فرعون، طاقتور ہستیاں
، جابر حکمران، بے انتہا دولت کے خزانوں کے مالک، مشہور ترین سیلیبریٹی،
انتہائی اثر و رسوخ والے لوگ، سب معمولی غلاموں بلکہ بھیڑ بکریوں کی طرح بے
بسی سے کھڑ ے اپنی قسمت کے فیصلے کے منتظر تھے اور آج انھیں بچانے والا
کوئی نہ تھا۔
پھر اس کا اعمال نامہ تولا گیا جس میں حسب توقع الٹے ہاتھ کا پلڑ ا بھاری
ہو گیا۔ فرشتے نے آگے بڑ ھ کر نامۂ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں تھمانا
چاہا، مگر اس نے ڈر کے مارے ہاتھ پیچھے کر لیا۔ فرشتے کے مقابلے میں اس کی
کیا حیثیت تھی۔ فرشتے نے اس کے ہاتھ پیچھے ہی کی سمت باندھ کر ان بندھے
ہوئے ہاتھوں میں سے الٹے ہاتھ میں نامۂ اعمال تھمادیا۔ پھر دونوں فرشتے اسے
مارتے پیٹے ان شعلوں کی طرف بڑ ھ گئے جہاں بدترین انجام اس کا منتظر تھا۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔ |