غربت انسان کوذہنی مریض بنادیتی ہے ۔موجودہ حالات ودورمیں
ضروریات زندگی مہیاکرناانتہائی مشکل ہے۔خاص کران خواتین کیلئے جن کے سروں
کے تاج اس دنیافانی سے کوچ کرچکے ہیں۔چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کے سروں سے
باپ کاسایہ اٹھ جانایقیناایک خاندان کے لیے اتنہائی اذیت کاباعث بنتا ہے۔
تمہیدباندھنے سے میری مرادوہ خواتین ہیں جوپڑھی لکھی ہیں اورزندگی کے
پرُخطرراستوں پربمشکل سفرکررہی ہیں ان کی زندگی یقینا ہرکسی کیلئے سبق اموز
ہے۔گزشتہ دنوں میری ملاقات ایسی ہی چندبے سہارا،لاچاراوربے یارومددگار پڑھی
لکھی خواتین سے ہوئی جن کی باتیں سن کریقیناافسوس ہوا۔ہمارے معاشرے میں
ایسی بہت ساری خواتین ہیں جوبے سہاراہیں ۔زندگی کے شب وروزاس انتظارمیں
گزاررہی ہیں کہ کہیں سے کوئی مسیحاآئے گاتوانہیں سکھ کاسانس ملے گالیکن
ایساہوتانظرنہیں آرہا۔سرکاری اداروں میں ملازمت کے حصول کیلئے جانے والی
خواتین دھکے کھانے پرمجبورہیں۔کیونکہ ان کے پاس نہ توسفارش ہے ،نہ رشوت
اورنہ ہی اثرورسوخ کی کوئی لڑی ہے صرف وصرف ڈگریاں ہیں۔ایسے حالات میں
ضرورت مندبے سہاراخواتین بے بس ہوجاتی ہیں ۔ایسی بہت ساری خواتین کومیں
ذاتی طورپرجانتاہوں جوزندگی کے شب وروزبے یارومددگارگزارنے پرمجبورہیں۔یہ
خواتین ہمارے ہی معاشرے کاحصہ ہیں ،ایک بیوہ خاتون جوگریجویٹ ہے اس کے تین
بچے بھی ہیں گفتگوکے دوران بے ساختہ روپڑی ،روتے روتے کہنے لگی کہ ہم
توزندگی جیسے تیسے گزارلیں گے لیکن ہمارے بچوں کے مستقبل
کاکیاہوگاجومعصومانہ اندازسے ہم سے سوال کرتے ہیں۔جوسوجھ بوجھ سے عاری اپنی
بیوہ ماں سے جب کچھ مانگتے تونہ دینے پرماں کے دل پرکیاگزرتی ہے یہ ایک ماں
ہی سمجھ سکتی ہے ۔ایسے مسلمان ملک کاکیابنے گا جہاں مائیں سسکتی ہیں،بیٹیاں
تڑپتی ہیں اوربچے بلکتے ہیں۔جن کوایک وقت کی روٹی کیلئے تڑپناپڑتاہے۔کیااﷲ
ان حکمرانوں سے نہیں پوچھے گاکہ تیری رعایامیں بچے تڑپتے رہے،مائیں سسکتی
رہیں، بیٹیاں روتی رہیں ۔قارئین کرام!ایک پرائیویٹ ادارہ کی ٹیچرجوانتہائی
کسمپرسی کی زندگی گزاررہی ہے۔وہ اپنے خاوندکی ستائی ہوئی ہے اس کاخاوندنشے
کاعادی ہے جب اس کومطلوبہ نشہ نہیں ملتاتووہ اپنی بیوی پرتشددکرتاہے ،اس
خاتون کے بچے بھی ہیں۔اپنے خاوندکے تشددسے تنگ آکرایک پرائیویٹ شلٹرہوم میں
اپنے بچوں کے ہمراہ زندگی کے شب وروزگزاررہی ہے ۔ان حالات میں پرائیویٹ
ادارہ کی ملازمت کرکے اپنے اوراپنے بچوں کی تعلیم ونان نفقہ کااہتمام کررہی
ہے۔یہ ہماری ہی مائیں بہنیں بیٹیاں ہیں جوزندگی کے مشکل ترین حالات سے
گزررہی ہیں۔ایسی خواتین اگرکسی کے پاس ملازمت کیلئے جاتی ہیں یاگورنمنٹ
اداروں میں نوکریاں تلاش کرتی ہیں تووہاں پربھی ان کی کوئی شنوائی نہیں
ہوتی۔گزشتہ دنوں ایک ایسے ہی پروگرام میں جانے کااتفاق ہواجہاں وہ خواتین
جومعاشرہ کے پڑھے لکھے طبقے کاحصہ ہیں لیکن بے سہاراہونے کی وجہ سے بری طرح
متاثرہیں۔ہرچہرہ اک کہانی کے مصداق بہت ساری پڑھی لکھی ہنرمند مائیں بہنیں
بیٹیاں غربت کی آخری لکیرسے نیچے زندگی گزارنے پرمجبورہیں ۔قارئین
کرام!بحیثیت مسلمان اپناکرداراداکرناچاہیے۔حکومتیں ایسے ادارے بنائے جن میں
ایسی خواتین کوروزگارکے مواقع مل سکیں جس سے ان کے چولہے جلنے کے ساتھ ساتھ
ان کے بچوں کامستقبل بھی سنورسکے۔حکومت ہرکسی کونوکری تونہیں دے سکتی لیکن
ان کے لیے ایسے ادارے توفراہم کرسکتی ہے جس کے ذریعے بیان کردہ خواتین کے
وسائل اورمسائل حل ہوسکیں۔اسی طرح معاشرے میں وہ لوگ جوسماجی کام کرتے ہیں
اورصاحب حیثیت ہیں انہیں بڑھ کرایسی خواتین کے بچوں کے لیے مفت تعلیم کی
فراہمی اوردیگرضروریات کوپوراکرنے میں کرداراداکرناچاہیے اوریقینابہت سارے
افراداورپرائیویٹ ادارے ایساکربھی رہے ہیں۔کسی بیوہ کاایک آنسواﷲ کی ناراضی
کاباعث بنتاہے ۔آگے بڑھیں اوراپنے اڑوس پڑوس میں دیکھیں کہ کہیں کوئی
خاندان ،فیملی ،ماں یااس کابچہ آج بھوکاتونہیں سویاہوا۔اپنے کھانے سے اس
کوبھی حصہ دیں،کیونکہ نبی آخرالزمانؐنے فرمایاکہ جب تم گھرمیں سالن
پکاؤتواس میں پانی زیادہ ڈالواوراس میں سے اپنے پڑوسی کوبھی دو۔یہ بے
سہارامائیں بہنیں بیٹیاں ہمارے ہی معاشرے کاحصہ ہیں ،ہماری ہی مائیں بہنیں
بیٹیاں ہیں ہمیں ہی ان کادست وبازوبنناہے۔
|