انسان کی زندگی میں’’روٹی ، کپڑا اور مکان‘‘ ان
تینوں چیزوں کی بہت زیادہ اہمیت و ضرورت ہے، جن کے بغیر وہ ایک خوش حال ،
صحت مند اور بہتر زندگی نہیں گزار سکتا۔اسی فکر و جستجو اور تگ و دو میں
انسانی زندگی گھومتی نظر آتی ہے۔انسان ان چیزوں کی تلاش و تتبع میں صبح و
شام ایک کردیتا ہے اور ان کے حصول کی ہر ممکنہ سعی و کوشش کرتاہے ۔اسی کی
فکر و طلب میں لوگ مختلف طریقے کے کاروبار، تجارت، محنت ، مزدوری اور کاری
گیری کرتے ہیں ،اور اپنی ضروریاتِ زندگی کو پورا کرتے ہیں، اپنے اہل و عیال
کی کفالت و پرورش کرتے ہیں ۔ لیکن بعض لوگ وہ بھی ہوتے ہیں ، جو ان تمام
راستوں کو چھوڑ کر ایک الگ اور علاحدہ راستہ اپناتے ہیں ،اور وہ بھیک
مانگنے کا راستہ ہے ،یہ ایک ایسا ذلت آمیز اور غیر حمیت پسند کام ہے، جسے
سماج و معاشرے میں اچھا نہیں سمجھا جاتا ہے۔ بلکہ بھیک مانگنے والے کو حقیر
اور ہیچ نگاہ سے دیکھا جاتاہے ۔اورایسے بھکاری لوگوں کی سماج میں کوئی وقعت
و حیثیت بھی نہیں ہوتی ہے۔ انہیں نچلے درجے کا آدمی تصور کیا جاتاہے ۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بھیک مانگنا کچھ لوگوں کی ضرورت اور مجبوری ہوا
کرتی ہے، جن میں عموماًوہ لوگ شامل ہوتے ہیں، جو نہایت ہی نحیف و ناتواں ،
اپاہج ،مفلوک الحال ، محتاج مختلف بیماریوں میں مبتلااور ایسے لوگ بھی ہوتے
ہیں، جن کا اپنا کوئی نہیں ہوتا ہے اور وہ محنت و مزدوری کرنے پربھی قدرت
نہیں رکھتے ہیں۔بھیک مانگنے کی ایک وجہ تو یہ سمجھ میں آتی ہے، جو کہ جائز
و درست بھی ہے۔ لیکن بھیک مانگناکچھ لوگوں کی ضرورت نہیں بلکہ عادت ہوتی ہے،
وہ ہٹے کٹے ، مشتنڈے اور اپنے بازووں پر طاقت و قوت رکھنے کے باوجودبھیک
مانگتے ہیں، گویا یہ ان کی عادت و خصلت ہوتی ہے۔ ایسے پیشہ ور بھکاری درد و
الم کی سراپا تصویر بنے اور میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس درگاہوں، مسجدوں،
شاہ راہوں اور محلوں میں اکثر و بیشتر بھیک مانگتیدکھائی دیتے ہیں۔
ایسے پیشہ ور بھکاری درگاہوں ، مسجدوں اور محلوں میں جاکر اپنی دکھ اور درد
بھری کہانیاں بیان کرتے ہیں، مختلف امراض کا رونا روتے اور اپنی من گڑھت،
جھوٹ پر مبنی اور فرضی باتوں سے لوگوں کے دل موہ لیتے ہیں اور موٹی موٹی
رقم ہڑپ کر راہِ فرار اختیار کرلیتے ہیں۔
ایسے ہی درویشانہ اور فقیرانہ لباس زیب تن کرکے کچھ لوگ بھیک مانگنے کو
اپنے لیے فخر و سعادت سمجھتے ہیں اور کچھ لوگ تو وہ ہوتے ہیں ، جو اپنے آپ
کو خاندانی فقیر اور درویش بتاکر محلوں اور گلیوں کا چکر کاٹتے ہیں اور
لمبے چوڑے سوال کرتے ہیں اور سوال پورا نہ کرنے پر طرح طرح کی بد گوئیاں
کرتے ہیں۔ ایسے لوگ حقیقی معنی میں بھیک مانگنے کے حقدار نہیں ہیں،انہیں
اپنی زکات و صدقات کی رقمیں دینا بھی جائز نہیں ہے۔بلکہ ان سے ہشیار رہنے
کی از حد ضرورت ہے۔
ایک عام تجزیہ بھی ہے کہ کچھ لوگ اس گھناؤنے فعل میں ملوث ہوتے ہیں کہ وہ
دور دراز کے علاقوں سے معذور اور حاجت مند لوگوں کو تلاش کرلاتے ہیں ، اور
انہیں مشہور مقامات پر بھیک مانگنے کے لیے بٹھادیتے ہیں اور شام میں ان سے
ساری رقم لے کر اس میں سے انہیں کچھ دے کر روانہ کردیتے ہیں۔ ہمارے ملک
ہندوستان میں اس طرح کا کام بہت بڑے پیمانے پر چل رہاہے،اس جانب حکومت کو
اپنی توجہ مرکوز کرنے اور ایسوں کے خلاف سخت کاروائی کرنے کی از بس ضرورت
ہے،جو معذور اور پریشان حال لوگوں کی پریشانی اور مفلوک الحالی کا ناجائز
فائدہ اٹھاکر ان کا استحصال کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں۔
یہ بھی ایک حقیقت پر مبنی تجزیہ ہے کہ دنیا میں بے شمار قومیں اور نسلیں
آباد ہیں ، ان تمام قوموں اور نسلوں میں بھیک مانگنے والوں کی تعدادخال خال
ملتی ہے، لیکن سب سے زیادہ بھیک مانگنے کا رواج مسلم معاشرے میں عام ہے، جو
ایک بہت بڑا المیہ ہے۔کس قدر افسوس کی بات ہے کہ جس مذہب نے بلاضرورت بھیک
مانگنے کی ازحد مذمت اور ممانعت کی ہے، آج اسی مذہب کے ماننے والے سرِ عام
بھیگ مانگتے نظر آرہے ہیں۔بلا ضرورت طلب سوال کرنا اور سر عام بھیک مانگنا
ناجائز و گناہ ہے اور اسلام میں اسے ایک ناپسندیدہ عمل بھی قرار دیا گیاہے
۔ اﷲ کے پیارے رسول ﷺ نے بلاضرورت طلب سوال کرنے سے منع فرمایا ہے۔شریعت نے
صرف دو ہی صورتوں میں سوال کرنے کی اجازت دی ہے ، ایک تو سائل کا کوئی حق
کسی پر ہے یا پھر وہ اتنا تنگ دست اور مفلوک الحال شخص ہے کہ بغیر سوال کیے
گزر بسر انتہائی مشکل ہے تو ایسی صورت میں مانگ سکتا ہے وہ بھی بقدر حاجات
ضرورت سے زیادہ تو قطعا جائز نہیں ۔ ذخیرۂ احادیث میں بکثرت حدیثیں اس کی
شدید مذمت و ممانعت میں وارد ہیں، چند حدیثیں قارئین کے لیے پیش ہیں :
حدیث (۱)حضرت عبد اﷲ ابن عمر رضی ااﷲ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے
فرماتے ہیں آدمی سوال کرتا رہے گا یہااں تک کہ قیامت کے دن اس حال میں آئے
گا کہ اس کے چہرے پر گوشت کا ٹکڑا نہ ہوگا یعنی نہایت بے آبرروو ہوکر۔(
بخاری، ج: ۱، ص: ۱۹۹)
حدیث (۲)حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے مرووی ہے کہ اﷲ کے رسول ﷺ نے ارشاد
فرمایاجو مال بڑھانے کے لیے سوال کرتا ہے ووہ انگارے کا سوال کرتا ہے تو
چاہے زیادہ وہ مانگے یا کم۔ ( مسلم، ج :۱، ص: ۳۳۳)
حدیث (۳)حضور اقدس ﷺ نے فرمایا جس پر نہ فاقہ گزرا اور نہ اتنے بال بچے ہیں
جن کی طاقت نہیں اور سوال کا دروازہ کھولے تواﷲ تعالیٰ اس پر فاقے کا
دروازہ کھول دے گاایسی جگہ سے جو اس کے گمان میں بھی نہیں۔ (بخاری )
ان تمام متذکرہ بالا احادیث مبارکہ کی رو سے معلوم ہوگیا کہ بلا ضرورت بھیک
مانگنا یا کمانے پر قدرت رکھنے کے باوجودسوال کرنایا مال بڑھانے کے لیے
سوال کرنا ناجائز و حرام اور گناہ ہے۔اب ایسے لوگوں کو سمجھنا چاہیے جو
بھیک مانگنے کو اپنا پیشہ بنالیتے ہیں اور سادہ لوح لوگوں کو لوٹتے ہیں ۔
مولانا امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ فتاویٰ رضویہ میں فرماتے ہیں: جو
اپنی ضروریات شرعیہ کے لائق مال رکھتا ہے یا اس کے کسب پر قادر ہے اسے سوال
کرنا حرام ہے اور جوا س مال سے آگاہ ہو اسے دینا حرام۔اور لینے والا اور
دینے والا دونوں گنہ گار( فتاویٰ رضویہ، ج ۴ ص،۵۰۱)
عوام کو چاہیے کہ ایسے پیشہ ور فقیروں اور بھکاریوں کو زکات ، صدقات اور
خیرات نہ دیں ، اور نہ ہی ان کے کسی سوال کو پورا کریں۔
سماج کے با ثروت اور مخیر حضرات کو چاہیے کہ جو حقیقی معنی میں غریب و
نادار اور حاجت مند ہوں، اپنی زکات و صدقات کی رقوم سے ان کی بھرپور مدد و
اعانت کریں ، انہیں اس مصیبت خیز اور پریشان کن زندگی سے نجات دلانے میں
اپنا اہم رول ادا کریں اور ان کی کفالت کی ذمہ داریوں کو برداشت کریں ،
ممکن ہے کہ اس انقلابی اور مؤثر اقدام سے مسلم سماج سے بھیک منگنی کا رواج
ختم ہوگا۔
٭٭٭ |