معاشرے کا عکس

ڈرامہ کسی بھی ملک یا علاقے کے رسم و رواج کی جہاں عکاسی کرتا ہے وہی اس علاقے کی سماجی برائیوں کی نشاندہی کر کے ان کا حل بھی دیتا ہے ۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے جدید ٹیلی وژن دور میں بھی ایسے کئی ڈرامے بنے ہیں، جو کافی عرصے تک لوگوں کو یاد رہیں گے ۔ ڈرامہ میری گڑیا ایک بہت بڑی کاوش ہے جو معاشرے کے بوسیدہ پہلو پر سے نقاب اٹھاتا ہے اور اس کی نشاندہی کرتا ہے ۔ڈرامہ ایک ماں کی کوششوں کو پیش کرتا ہے جس کی بیٹی کو ایک درندہ صفت انسان اپنی حوس کا نشانہ بنا کر قتل کر دیتا ہے جو معصومیت کا نقاب اڑھے انہیں کے درمیان موجود ہے ۔ماں ہر مصیبت کے باوجود انصاف کی جنگ جاری رکھتی ہے ۔ اپنی اور دوسری بچیوں کے لیے انصاف مانگتی ہے جو ایسی درندگی کا شکار ہو چکی ہیں ۔ جہاں یہ ڈرامہ انصاف کی لڑائی لڑتا ہے وہیں ہماری اور بچوں کی راہنمائی بھی کرتا ہے کہ کیسے ان حالات میں اپنے حواس کو برقرار رکھنا ہے اور حالات کا سامنا کرنا ہے ۔

ہمارے معاشرے میں بچوں کے ساتھ زیادتی عام سے بات بن گئی ہے ، ہم اکثر اس معاملے میں ٹال مٹول سے کام لیتے ہیں مگر اب ہمیں ہوش کے ناخن لینے چاہئیں وگرنہ یہ درندگی ہماری نسلوں تک کو نگل جائے گی ۔اب ہمیں اس سمت سخت قدم اٹھانے کی ضرورت ہے جس میں قانون پہلو بھی نمایاں ہے اور لوگوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہے اور اپنے بچوں کو ایسی درندگی سے بچانا ہے ۔ بچوں کے تحفظ کے حوالے سے معلومات کو اب نصاب میں شامل کیا جانا چاہیےاور پیشہ ورانہ طریقے سے بچوں، اساتذہ، ڈاکٹروں، سکول کونسلروں اور پولیس میں شعور اجاگر کرنےاور تربیت دینے کی سخت ضرورت ہے ۔والدین کو بھی چاہیے کہ اپنے بچوں کی اس طرح تربیت دیں کہ کسی کی گود میں نہیں بیٹھنا، کوئی چہرے پر پیار نہ کرے اور اگر کرے تو سخت ناگواری کا اظہار کرنا اور آکر ہمیں بتانا ہے ۔ ہمارے معاشرے میں جوائنٹ فیملی سسٹم ہے تو اس میں یہ بات بلکل معیوب نہیں سمجھی جاتی کہ چھوٹی بچیاں چچا، تایا، ماموں کی گودیوں میں کھیلیں۔ ہمارے ہاں اس بات کو نوٹس بھی نہیں کیا جاتا لیکن ہم خود ہی بچوں کی تباہی کے ذمہ دار ہیں کیونکہ بچے سمجھتے ہیں کہ اگر تایا اور ماموں کی گود میں بیٹھنا یا ان کا پیار کرنا معیوب نہیں تو چاکلیٹ کے بہانے کوئی بھی ان کو پیار کر سکتا ہے۔ یہ بچوں کی سوچ ہے جسے ہمیں تبدیل کرنا ہے ساتھ ساتھ ان بڑوں کو بھی سمجھانا ہےاور اس کی شروعات اپنے ہی گھر سے کرنا ہوگی ۔یعنی شروع سے ٹریننگ وہ بھی سخت والی ٹریننگ، بیٹی ہو یا بیٹا دونوں کی حفاظت ماں باپ سے بہتر کوئی نہیں کر سکتا، بچوں کو قران پڑھانے والے مولوی، ٹیوشن ٹیچرز، میڈز اور ڈرائیورز کے حوالے کر کے ہم اپنے ہر فرض سے بری الزمہ ہو جاتے ہیں لیکن یہ نہیں سوچتے وہ غیر ہیں اور اولاد آپ کا اپنا بہت قیمتی اثاثہ۔ ڈرائیور اور میڈز کو تو چھوڑیے بچوں کے ساتھ جنسی استحصال کے جتنے واقعات بھی آج تک سامنے آئے ان میں ملوث کوئی انتہائی قریبی رشتہ دار یا جاننے والا ہی نکلا ہے، اس لئے اگر آپ اپنے بچوں کو اپنے بڑوں سے دور رکھنے کی ٹریننگ دے رہے ہیں تو اس میں کسی کو بھی برا ماننے کی ضرورت نہیں کیونکہ زمانہ ہی اتنا خراب ہے۔ اس لئے اپنی آنکھیں کھولیئے اور اپنے بچوں کا خیال رکھیں ۔

Asma Tariq
About the Author: Asma Tariq Read More Articles by Asma Tariq: 86 Articles with 67265 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.