اکرم سہیل سابق بیوروکریٹ ہیں اور ادیب ، شاعر بھی ہیں ،
ایک ہفتہ قبل راولاکوٹ آمد پر ان سے ملاقات ہوئی تو بڑا دلچسپ واقعہ سنایا
کہ ”سینئر بیوروکریٹ نعیم شیراز کوٹلی میں ڈپٹی کمشنر تھے تو بات عام ہوئی
کہ ایک خطرناک گروہ پبلک سروس گاڑیوں میں دوران سفر مسافروں کو نشہ آور
مشروب پلا کر ان کی جیب سے سامان بشمول پرس نکال لیتا ہے اور ایک ماہ میں
اس طرح کی متعدد وارداتیں ہو چکی ہیں جو ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں۔ ڈپٹی
کمشنر نے سیکورٹی اداروں کو ٹارگٹ دیا کہ اس گروہ کا سراغ لگایا جائے ۔
بالآخر سیکورٹی اداروں نے ایک ہفتے کے اندر کوٹلی سہنسہ روٹ پر چلنے والی
پبلک سروس ٹرانسپورٹ سے ایک مشکوک شخص کو گرفتار کیا اور پوچھ گچھ پر پتہ
چلا کہ وہ اکیلا اس سارے ” کاروبار “ کا مالک ہے ۔ ڈپٹی کمشنر کو اطلاع دی
گئی تو انہوں نے ملزم کو اپنے دفتر میں لانے کا کہا اور خود ملزم سے بات
چیت کی ۔ ملزم نے بتایا کہ وہ پنجاب کے ایک پسماندہ شہر سے تعلق رکھتا ہے ،
مجموعی طور پر آزادکشمیر میں اس کا یہ ” کاروبار “ 9ماہ سے چل رہا ہے ۔ چار
ماہ راولپنڈی سے راولاکوٹ جانے والی پبلک سروس گاڑیوں کے روٹ پر لوٹ مار
کرنے کی کوشش کرتا رہا۔کام نہ چلا تو اب 6ماہ سے کوٹلی اور اس کے مضافات
میں چلنے والی پبلک سروس ٹرانسپورٹ میں یہ کام شروع کر رکھا تھا ۔ ڈپٹی
کمشنر نے سوال کیا کہ راولپنڈی راولاکوٹ تو اچھا روٹ تھا وہاںتہمارا کام
چلا کیوں نہیں ؟ ملزم نے بتایا کہ صاحب یہ مشکل روٹ تھا ، پبلک سروس گاڑی
میں بیٹھے کسی مسافر کو اگر مشروب پینے کی پیشکش کرتا تو وہ جھگڑے پر اتر
آتا کہ تمہیں ہمت کیسے ہوئی کہ مجھے مشروب پیش کیا ۔ الٹا وہ مجھے دھمکیاں
دیتا اوی پولیس کے حوالے کرنے کی دھمکیاں دیتا، اگر کوئی غلطی سے میرا پیش
کیا ہوا مشروب پی کر نیم بے ہوش ہو ہی جاتا تو اس کی جیب سے نکلنے والے پرس
سے مختلف طرح کے کارڈ اور رسیدیں ہی نکلتی تھیں۔ میرا تو خرچہ بھی برابر نہ
ہوتا تھا ۔ بس میں نے اس علاقے ( کوٹلی ) کا انتخاب کیا اور میراتجربہ بڑا
کامیاب رہا ، کوٹلی سے مختلف شہروں کے لیے نکلنے والی مسافر گاڑیوں میں اگر
کسی کو نشہ آور مشروب پیش کریں تو وہ بخوشی قبول کر لیتا ہے ۔شربت نوشی کے
بعد شکریہ بھی ادا کرتا ہے بلکہ اگر کوئی مسافر شوگر کا مریض ہو تو تب بھی
دو تین دفعہ پیشکش کرنے سے وہ یہ سوچ کر پی لیتا ہے کہ ایک دفعہ پینے سے
کیا ہو گا ۔پیشکش کرنے والے کا دل نہ دکھ جائے ۔یوں میں آسانی سے ان کی جیب
سے پرس نکال لیتا ہوں اور اس میں اچھی خاصی رقم بھی ہوتی ہے ۔ اس طرح میرا
” کاروبار “ جس میں سرمایہ کاری ہمیشہ ” رسک “ پر ہوتی ہے بہترین چل رہا ہے
۔ ڈپٹی کمشنر نے آخری سوال کیا کہ وجہ کیا ہے کہ یہاں (کوٹلی ) میں مسافر
آسانی سے مشروب پینے پر آمادہ ہو جاتے ہیں تو ملزم بے ساختہ بولا کہ صاحب
یہ ” لحاظی “ طبیعت کے مالک ہیں ، دوسرے کا لحاظ رکھتے ہیں اور کسی بات کو
رد نہیں کرتے ۔ بس یوں اس لحاظی طبیعت نے میرے کاروبار کو خود چمکایا “۔ یہ
واقعہ یوں تو تقریباً دو دہائیاں پہلے کا ہے لیکن آج کا ہی لگتا ہے ۔ وقت
گزرنے کے ساتھ ساتھ ہماری ”لحاظی“ طبیعت میں بھی اضافہ ہوتا گیا ۔ بچے کو
اسکول میں داخل کرواتے وقت خالہ کی بیٹی کے اسکول یا پڑوس میں رہنے والے
صاحب حیثیت کی بیٹی کے اسکول کا لحاظ رکھا جاتا ہے ۔ یہ قطعاً نہیں دیکھا
جاتا کہ اسکول کی اپنی کیا حثیت ہے ۔رشتہ داریوں میں بھی یہی لحاظی طبیعت
آڑے آتی ہے کہ دور کے رشتے دار ناراض نہ ہو جائیں ۔وقتی طور پر دور کے رشتے
داروں کو خوش کرنے کے لیے اسقدر لحاظ کیا جاتا ہے کہ پھر ساری زندگی اسی ”
لحاظ“ کو ہی کوستے رہتے ہیں کیونکہ رشتے داری پکی کیا کی کہ پرانی بھی چلی
گئی۔ خود معاشرہ بھی ہمارا اسقدر لحاظی ہو چکا ہے کہ اگر آپ نے خاندان کی
سنی ان سنی کر دی تو خاندان میں بھی دراڑیں پڑ جائیں گی ۔خریداری سے لیکر
شادی بیاہ میں شرکت تک اسی ” لحاظ “ کی خاطر لاکھوں کا نقصان کر دیا جاتا
ہے ۔ لیکن زیادہ نقصان حق رائے دہی ، ملازمتوں کے حصول اور زندگی کے دیگر
شعبہ جات میں اٹھایا جاتا ہے جس کا اظہار خود اکرم سہیل صاحب نے بھی کیا ۔
آزادکشمیر میں کئی انتخابی حلقے ایسے ہیں جہاں روایتی در روایتی امیدوار وں
کامحض لحاظ رکھاجاتا ہے کہ ان کو ووٹ نہ دیا تو وہ ناراض ہو جائیں گے ۔
حالانکہ وہ آپ کو جانتا تک بھی نہیں ہوتا ۔یہ قسمت آزمائی ایک دفعہ نہیں
ایک سے زائد مرتبہ کی جاتی ہے ، ووٹ دیتے وقت قطعاً یہ نہیں دیکھا جاتا کہ
جس شخص کو ووٹ دے رہے ہیں وہ اس اہل ہے بھی کہ نہیں اور اگر اہل ہے تو کیا
اس کے انتخابات میں کامیابی سے ریاست یاعوام کو کوئی فائدہ ہو گا ۔ یہ
لحاظی طبیعت ایک سے زائد مرتبہ آڑے آتی ہے ،نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ”جوش“ میں
آ کر” ہوش“ کو ٹھکانے لگا دیتے ہیں اور بعد میں ہوش آنے پر جوش پر ماتم
کرتے ہیں ، وقت آ گیا ہے کہ زندگی کے ہر شعبہ میں ” لحاظی “ طبیعت کو ختم
کر کے محض میرٹ کو ترجیح دیں۔ فیصلے کرتے وقت اپنے ضمیر سے ضرور ”مشاورت “
کریں اور ضمیر سے ہی فیصلے کیے جائیں نہ کہ ”لحاظ“ سے کیے جائیں ۔کوئی بھی
فیصلہ کرتے وقت لحاظ کو ملحوض خاطر نہ رکھیں تا کہ بعد میں اپنے کیے پر نہ
پچھتائیں اور نہ ہی اپنی نسلوں کو کسی مشکل میں ڈالنے کا روایتی سلسلہ جاری
رکھیں۔
|