شاید ہم اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہیں۔ اسلام کیا کہتا
ہے، انسانیت کیا درس دیتی ہے ،اخلاقیات کس چیز کا تقاضا کرتے ہیں ۔ یہ نہ
ہماری پولیس کو پتہ ہے اور نہ ہی ہمارے تفتیشی اداروں کو ۔ کسی سیاسی شخص
کے جتنے مرضی جرائم ہوں ان اداروں کی پہلی کوشش ان جرائم کو نظر انداز کرنے
کی ہوتی ہے اور اگر مجبوری میں اس سیاستدان کو قابو کرنا پڑے تو اس کی عزت
اور احترام میں یہ لوگ گھٹیا حد تک چلے جاتے ہیں۔ نیب کی حراست میں کوئی
شخص ہو تو اس کے عزیز واقارب ہفتوں اسے نہیں مل سکتے مگر با اثر سیاستدان
ہو تو یہ لوگ اس قدر بچھتے ہیں کہ ان کے گھر والوں کو خصوصی اجازت نامہ ان
کے گھربھیج دیتے ہیں کہ آؤ اور مل لو۔اسے بڑے احترام سے ہاتھ باندھے ساتھ
چلتے ہوئے عدالت لے کر جاتے ہیں اور اپنی جیل میں انہیں گھر جیسی سہولتیں
فراہم کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ یہی لوگ جب قوم کے معماروں کی بات آتی
ہے تو اس حد تک گر جاتے ہیں کہ وہ استاد کو ہتھکڑیاں لگا کر بڑے فخر سے
ایسے چلتے ہیں کہ محسوس ہوتا ہے کہ احساس اور غیرت ان کے پاس نہیں پھٹکی۔
مختلف یونیورسٹیوں کے دس سے زیادہ معمر اساتذہ ،جن میں وائس چانسلر بھی
شامل ہیں، کو نیب نے مختلف الزامات میں حراست میں لیا اوران کو ہتھکڑیاں
لگا کرجس انداز میں عدالت میں پیش کیاوہ کسی مہذب معاشرے کے لوگوں کے لئے
ڈوب مرنے کا مقام تھا۔ ان لوگوں کے اثاثہ جات کیا ہونگے ۔ ایک بوسیدہ یا
نامکمل مکان اور اس کے علاوہ عزت مرتبہ اور انسان دوستی۔کس قدر افسوس کا
مقام ہے کہ وہ لوگ جن کا سرمایہ ہی عزت اور وقار ہے اسے چھیننے کی غلیظ
حرکت یہ معاشرہ آسانی سے ہضم کر گیا ہے۔ اخلاقی طور پر کسی بھی معاشرے کے
بڑے لوگ وہاں کے استاد ہوتے ہیں۔ اساتذہ کی تذلیل کے مجرم صرف وہ لوگ ہو
سکتے ہیں جنہیں اپنے ماں اور باپ کی عزت کرنا نہیں آتی۔ کیونکہ یہ ممکن ہی
نہیں کہ جسے ماں باپ کی خدمت کرنا آتی ہو وہ کسی روحانی باپ کو یوں
ہتھکڑیوں میں باندھ کر عدالت پیش کرے اور اس پر اترائے۔اساتذہ کو حراست میں
لینے والوں کی اتنی عمریں نہیں ہوں گی جتنے سال ان اسیراساتذہ نے اپنا جسم
جلایا ہے کہ اس ملک کے اندھیروں کو دور کردیں۔اس ملک کی نئی نسل کو اچھا
انسان بنا دیں۔ انہیں ایک اچھے شہری کا طرز عمل بتا دیں مگر سب لا
حاصل۔اساتذہ کا جو بھی جرم ہو اس معاشرے پر ان کے احسانوں سے بدرجہا کم ہو
گا۔ اگران کا کوئی جرم ثابت ہو تو ضرور سزا دیں مگر اس پیشے کے تقدس کو
پامال مت کریں۔شاید سائنسدان سچ کہتے ہیں کہ بچہ جو سیکھتا ہے گھر سے
سیکھتا ہے۔ چار پانچ سال کی عمر میں بچہ جب سکول داخل ہوتا ہے تو اس کی
شخصیت کا ستر فیصد مکمل ہو چکا ہوتا ہے۔ بنیادی تعلیم یعنی اٹھنا، بیٹھنا،
بات کرنا، دوسروں کے ساتھ طرزعمل، اچھے اخلاق اور ایسی سب باتیں اس کے گھر
اور گھر کے ماحول نے اسے عطا کر دی ہوتی ہیں۔ سکول اور استاد اسے بہتر کرنے
کی سعی ضرور کرتے ہیں اور اگر گھر سے اسے سیکھنے کی تعلیم دی گئی ہو تو
سکول کے نتائج بہتر ہوتے ہیں لیکن اگر گھر کا ماحول نیچ سطح کا ہو تو استاد
کی سعی وہ مقاصد حاصل نہیں کر سکتی جس کا معاشرہ استاد سے تقاضا کرتا
ہے۔شاید یہی ماحول ایسے دل آزار واقعات کا سبب بنتا ہے۔
مقابلے کا امتحان بڑا عجیب ہے کہ بہت سے انتہائی غریب خاندانوں کے بچے
امتحان میں کامیابی حاصل کرکے بڑے عہدے تو حاصل کر لیتے ہیں مگر اپنا
خاندانی پس منظر اپنے اندر سے نہیں نکال سکتے۔ وہ پیدائشی طور پر جو ہوتے
ہیں ،ویسے ہی رہتے ہیں اورویسے ہی رہیں گے۔ان سے بہتر اخلاقیات کی توقع
رکھنا خا م خیالی ہے۔ پولیس کے افسروں کو ہی دیکھیں ، ان میں زیادہ تر کو
یہ تو پتہ ہوتاہے کہ کس تھانے سے کتنی آمدن ہے مگر کردار اور اخلاق سے
ناواقف اوربے بہرہ ہوتے ہیں ۔ میں حیران ہوں اس جج پر بھی کہ جس کے سامنے
ان معزز اساتذہ کو ہتھکڑیوں کے ساتھ پیش کیا گیا اور وہ خاموش رہے کچھ
محسوس نہیں کیا۔میں سمجھتا ہوں کہ جو جج چیزوں کو محسوس نہیں کرتا وہ اچھے
فیصلے بھی نہیں کر سکتا۔
سب سے خوش آئند بات یہ ہے کہ جناب چیف جسٹس ،جو خود بھی استاد رہے اور
پڑھاتے رہے،نے سوموٹو ایکشن لیا اور معاشرے کے سوئے ضمیر کو
جھنجھوڑا۔اساتذہ ان کے ممنون ہیں۔ مگر مجھے ان سے ایک گلا بھی کرنا ہے۔
جناب چیف جسٹس !بڑے بڑے مکروہ لہجے اور گھناؤنے عزائم رکھنے والے لوگ آپ کی
عدالت میں ٹسوے بہانا اور معافی مانگنا شروع کر دیتے ہیں اور کسی ایک آدھ
کے سوا سب کو معافی مل جاتی ہے۔ یہ تمام عدالتوں کی پرانی روایت ہے اور
زیادہ تر ایسا ہی ہو تا ہے۔ خدارا اس روایت کو بدل جائیں ۔ یہ ظالم لوگ رحم
کے قابل نہیں ۔ اساتذہ کو ہتھکڑیاں لگانے والوں نے بھی معافی مانگ کر اپنی
جان بچا لی۔ کاش آپ ان تمام افسروں کو فقط ایک دفعہ سزا کے طور پر چاہے چند
منٹ کے لئے ہی ہتھکڑیاں لگوا دیتے کہ انہیں اس ذلت کا احساس تو ہوتا جو
انہوں نے قوم کے معماروں کو دی اور آئندہ عمر بھر وہ ایسا قدم اٹھانے سے
پہلے ایک دفعہ ضرور سوچتے ۔ |