سادگی اسلام کا حسن اور انسان کی خوشحالی کی ضامن ہے ۔لباس
و کردار،گفتار و افعال معاشرتی و معاشی اعمال سمیت وہ کون سا شعبہ ہے جسے
ہم سادگی کا حسن نہیں دے سکتے ؟ قرآن کریم و احادیث نبویہ میں تو سادگی کی
بار بار تاکید کی گئی ہے ۔رسول رحمتﷺ پر نازل ہونے والی آخری الہامی کتاب
قرآن کریم ارشاد فرماتا ہے : وَاللّٰہُ جَعَلَ لَکُمْ مِمَّا خَلَقَ
ظِلٰلًا وَّ جَعَلَ لَکُمْ مِنَ الْجِبَالِ اَکْنَانًا وَّ جَعَلَ لَکُمْ
سَرَابِیْلَ تَقِیْکُمْ الْحَرَّ وَ سَرَابِیْلَ تَقِیْکُمْ بَاْسَکُمْ۔ (پارہ
نمبر14رکوع نمبر17)
ترجمہ :’’ اور اﷲ تعالیٰ نے تمہیں اپنی بنائے ہوئی چیزوں سے سائے دئیے اور
تمہارے لئے پہاڑوں میں چھپنے کی جگہ بنائی اور تمہارے لئے کچھ پہناوے بنائے
کہ تمہیں گرمی سے بچائیں اور کچھ پہناوے کہ لڑائی میں تمہاری حفاظت کریں۔‘‘(ترجمہ
کنز الایمان)فرمانِ خدا وندی میں انسان کے لئے بنائی گئی اشیاء کا ذکر بڑے
سادے پیرائے میں کیا گیا ہے ۔ پروردگار عالم نے اپنی دی ہوئی نعمتیں کھانے
پینے اور اپنے دیئے ہوئے مال خوشی خوشی احسان جتائے بغیر اور نمود و نمائش
کی خواہش کے بغیر صدقہ کرنے اور سادہ لباس پہننے کا حکم دیا ہے جس میں تکبر
نہ آئے ۔
رسول کائنات ﷺ نے فرمایا:’’ کھاؤ اور پیو اور صدقہ کرو اور پہنو جب تک
اسراف و تکبر کی آمیزش نہ ہو ۔(یعنی سادگی اپناؤ)۔(ابن ماجہ)
دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے کہ ’’جو شخص باوجود قدرت کے اچھے کپڑے پہننا ،تواضع
(عاجزی) کے طور پر چھوڑ دے اﷲ تعالیٰ اس کو کرامت کا حلہ (جنتی لباس)
پہنائے گا۔‘‘(ابو داؤد)
لہٰذا لباس میں سادگی کا حکم ہمیں فرمانِ رسول ﷺ سے ملتا ہے ۔لیکن سادگی کا
مطلب ہر گز یہ نہیں کہ صفائی ستھرائی کا خیال نہ رکھا جائے ۔
لیکن ہمارا تو عنوان ہے ’’سادگی وقت کی ضرورت‘‘ یہ سادگی صرف لباس کی نہیں
بلکہ کھانے پینے ،رہائش و سواری اور دیگر امور زندگی میں بھی ضروری ہے ۔سادگی
اپنانے والا فضول خرچی سے بچ سکتا ہے کیونکہ فضول خرچ کو قرآن حکیم نے
شیطان کا بھائی قرار دیا ہے ۔سواری میں سادگی کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اپنے
مرتبے کے مطابق سواری نہ لے بلکہ اپنے مقام و مرتبے کے مطابق سواری خرید ے
مگر اتنی سواریاں نہ ہوں کہ جس سے خود پر یا ملک و ملت پر بوجھ پڑے ۔ اس پر
نبی اکرم ﷺ کا قولِ مبارک ہے جس کو حضرت ابو سعید خدری رضی اﷲ عنہ نے روایت
فرمایا کہ ایک سفر میں ہم حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے کہ ایک شخص
اپنی سواری پر آیا ۔اس نے دائیں بائیں دیکھنا شروع کر دیا ۔نبی کریم ﷺ نے
ارشاد فرمایا:’’ جس کے پاس زائد سواری ہو وہ اس شخص کو دے جس کے پاس سواری
نہیں۔جس کے پاس زیادہ زادراہ ہے وہ اس آدمی کو دے جس کے پاس زاد راہ نہیں ۔اسی
طرح مختلف اقسام مال کا ذکر فرمایا ۔یہاں تک کہ ہم نے خیا ل کیا کہ زائد
چیزوں پر ہمارا کوئی حق نہیں ۔‘‘(مسلم شریف)
مذکورہ حدیث مبارک سے پتہ چلتا ہے کہ ضرورت سے زیادہ اشیاء جمع رکھنا اور
پھر اُن پر اترانا نامناسب ہے جبکہ سادگی یہ ہے کہ ضرورت کے مطابق ہر چیز
کو استعمال میں لایا جائے ۔
سادگی اپنا نے والا اپنا پاؤں اتنا ہی پھیلاتا ہے جتنا اُس کی چادر کا
پھیلاؤ ہو ۔سادگی سے انسان بے نیازی کی صفت سے متصف ہوتا ہے اور قرض کے
بوجھ سے بھی بچ جاتا ہے ۔آج کے دور میں ہمارے معاشرے کا اشرافیہ طبقہ سادگی
کو باعثِ ننگ و عار سمجھتا ہے ۔شادی بیاہ اور دیگرتقریبات میں فیشن اور
نمود و نمائش نے ہماری رسومات سے لفظ سادگی کو بیگانہ کر دیا ہے ۔قرض لے کر
رسومات کی ادائیگی اور غمی و خوشی کے معاملات سرانجام دئیے جاتے ہیں تاکہ
معاشرہ میں عزت رہ جائے ۔لیکن اگر سادگی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا
جائے تو انسان بہت سی قباحتوں سے بچ جاتا ہے ۔حکمران طبقہ آج کل سادگی سے
نا آشنا ہے ۔ان کی رہائش و لباس و دیکھ کر توقیصر و کسریٰ کے سرنگوں ہو
جاتے ہیں ۔پاکستان جو سادہ طور و اطوار کے حامل قائد اعظم محمد علی جناح
رحمۃ اﷲ علیہ اور صوفیاء و مشائخ سمیت سادگی سے متصف قائدین کی شبانہ روز
محنتوں کا ثمر ہے ۔اس میں تو سادگی کو اولیت حاصل ہونی چاہئے تھی ۔مدینہ
منورہ کے بعد اسلامی نظریاتی مملکت پاکستان معرض وجود میں آیا ۔مگر حصول
پاکستان کی تحریک میں جتنے سادگی پر ست لیڈر تھے اتنے ہی شاہ خرچ حکمران
بعد میں میسر آتے رہے اور آ رہے ہیں ۔جس قوم پر اربوں ڈالر قرض ہو ،جس قوم
میں فاقہ کشی سے افراد ملت خود کشیاں کر رہے ہوں ،جس قوم کے افراد ڈگریاں
گلے میں لٹکا کر سڑکوں پر نوکری کی تلاش میں دربدر چکر لگاتے ہوں ۔جس قوم
کے لوگ خود سوزیاں کر کے انصاف نہ ملنے پر موت کو گلے لگا رہے ہوں ،جس ملک
کے عوام لوڈ شیڈنگ بجلی ، گیس کے بحرانوں اور اشیائے خورد و نوش قیمت ادا
کرنے کے باوجود حاصل نہ ہونے پر پھندوں سے جھول جائیں کیا اُس قوم کے
سربراہان کو شاہ خرچیاں زیب دیتی ہیں۔ لاکھوں روپے کے روزانہ کی بنیادوں پر
اخراجات کے اجلاسزاور کانفرنسز مناسب ہیں ۔اگر یہی حکمران اور سربراہان ملک
و قوم سادگی کی نعمت کو اپنائیں اور ملک و ملت کی فلاح کی طرف متوجہ ہوں تو
انقلاب مدینہ کی یاد تازہ ہو سکتی ہے ۔لہٰذا میری مذکورہ بالا ساری بحث سے
نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سادگی ہی وقت کی ضرورت ہے جس سے ہم ملک و قوم کو
سربلند کر سکتے ہیں اور آنے والی نسلوں کے لئے سرمایۂ حیات جمع کر کے اُن
کو اسلام کے اعلیٰ و حسین عمل سادگی کی تلقین کر سکتے ہیں۔
خدا کرے اتر جائے تیرے دل میں کھری بات |