آپ کوئی چھوٹا سا کام فرض کر لیجئے، فرض کریں آپ کا
شناختی کارڈ گم ہوگیا ہے، آپ رپورٹ درج کرانے تھانے چلے گئے ، ڈیوٹی پر
مامور پولیس والا آپ کو ایک لکھی لکھائی درخواست تھما دے گا۔ اس میں خالی
جگہ پر آپ نے اپنا نام ، اپنے والد کا نام ، گمشدہ شناختی کارڈ کا نمبر
اور گم ہونے کی تاریخ لکھنی ہے۔
اس کے بعد جب آپ واپس درخواست جمع کروانا چاہیں گے تو پولیس والا کہے گا
کہ درخواست تو آپ کی جمع ہوجائے گی بس آپ تھوڑا سا تعاون کر دیجئے۔
پاکستان کے سرکاری دفاتر میں ایک معمولی سا کام بھی رشوت کے بغیر نہیں ہو
سکتا۔بعض دفاتر میں جب سائل رجوع کرتا ہے تو افیسر صاحب اس کا مسئلہ سننے
کے بعد اسے کہتے ہیں کہ جی نہیں آپ کا مسئلہ بہت سنگین ہے اور آپ کا کام
نہیں ہو سکتا مثلا فلاں فلاں وجوہات کی بنا پر آپ کا پاسپورٹ نہیں بن
سکتا۔ جب بندہ مایوس ہوجاتا ہے تو پھر اسے کہتے ہیں کہ ساتھ والے کمرے میں
جائیں، وہاں فلاں صاحب آپ کو مسئلے کا کوئی حل بتائیں گے۔ جب وہاں جاتے
ہیں تو آگے موجود شخص منہ مانگی رشوت وصول کر کے وہ کام کر دیتا ہے۔
بالکل اسی طرح زائرین کو تفتان روٹ پر لوٹا جاتا ہے، زائرین سے تعاون مانگا
جاتا ہے، جو بروقت تعاون کردیتے ہیں ان کے قافلے گزر جاتے ہیں اور جو تعاون
کرنے کا مطلب نہیں سمجھتے یا بروقت منہ مانگا تعاون نہیں کرپاتے انہیں
سیکورٹی اور این او سی کے نام پر اتنا تنگ کیاجاتا ہے کہ بالآخر ان سے کچھ
نہ کچھ نچوڑ کر نکالا جائے۔
موصولہ اطلاعات کے مطابق زائرین کا ایک قافلہ منگل سولہ اکتوبر ۲۰۱۸کو جب
سندھ اور بلوچستان کے بارڈر جیکب آبادپہنچا تو پولیس نے روک کر چائے پانی
اور کچھ تعاون مانگا۔ ذرائع کے مطابق سالار کاررواں سے پولیس نے بطور رشوت
دس ہزار روپے مانگے جو سالار نے مسافروں سے جمع کر کے دینے تھے اس پر
مسافروں نے احتجاج کیا۔ اب احتجاج تو پولیس کو ناگوار گزرنا ہی تھا۔
احتجاج پر پولیس طیش میں آئی اور ایس ایچ او نے ایک خاتون پر گاڑی چڑھا
دی۔جس سے محترمہ موقع پر ہی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔
اب کیا ہوگا؟ وہی ہوگا جو ۲۰۱۷ میں اسلام آباد ایئرپورٹ میں خواتین پر
تشدد کرنے والے سرکاری اہلکاروں کے ساتھ ہوا تھا، محض کچھ دن اخبار میں
سرخیاں لگیں اور بعد ازاں کسی ایک معمولی اہلکار کو ذمہ دار قرار دیکر سارا
ملبہ وقتی طور پر اس پر ڈال دیا گیا۔اسی طرح یہاں بھی کچھ نہیں ہوگا ، دودن
خبریں چلیں گی ایک آدھ دن کوئی احتجاج وغیرہ ہوگا اور ایک آدھ پولیس والے
کو ذمہ دار قرار دے کر معاملہ رفع دفع کر دیا جائے گا۔
ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ اصل مسئلہ ہمارے اس رشوت خور کلچر کا ہے جس کی
وجہ سے ہمیں اپنے واجبات، مستحبات اور عبادات کی انجام دہی کے لئے بھی
سرکاری اہلکاروں کو رشوت دینی پڑتی ہے۔
ہمیں سنجیدگی سے اس رشوت خور کلچر کے خاتمے کے لئے سوچنا چاہیے جو اب عوام
کی جانیں لینے کے درپے ہے۔ کیا یہ سچ نہیں کہ سمجھدار لوگ سرکاری اہلکاروں
کی اس رشوت خوری اور حرام خوری کی وجہ سے تھانے کچہریوں میں جانے سے کتراتے
ہیں۔یہ سمجھداری ہے لیکن نصف سمجھداری ہے پوری سمجھداری یہ ہے کہ کترانے کے
بجائے اداروں کی اصلاح کے لئے زور لگایا جائے اور رشوت خور مافیا کا مقابلہ
کیا جائے۔
اب پاکستان میں یہ دن بھی آنے تھے کہ مقدس مقامات کی زیارت کے لئے جانے
والے لوگوں سے بھی راستے میں رشوت مانگی جاتی ہے۔اگر اب بھی ہم بیدار نہ
ہوئے تو پھر وہ دن دور نہیں جب رشوت لینے والا مسجد کے دروازے پر بھی کھڑا
ہوگا۔
آخر کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے۔۔۔
|