پاکستان کا نظامِ تعلیم

کسی بھی ملک کی ترقی کا اندازہ اس کی شرح خواندگی سے لگایا جاسکتا ہے۔ دنیا میں وہ ممالک جو ترقی یافتہ ہیں وہ عموماً 100 فیصد شرح خواندگی کے حامل ہیں۔ اگر پاکستان کے حوالے سے دیکھا جائے تو پاکستان میں تعلیم صرف واجبی خواندہ افراد، یعنی جو اپنا نام لکھنا اور پڑھنا جانتے ہوں اور اپنی دستخط کرنا جانتے ہیں، انھیں خواندہ تسلیم کر کے شرح خواندگی کے اعداد و شمار نکالے جائیں تو بھی کھینچ تان کر بمشکل 55 فیصد تک پہنچتے ہیں۔ یونیسکو کی ایک رپورٹ کے مطابق شرح خواندگی کے لحاظ سے پاکستان دنیاکے221 ممالک کی فہرست میں 180ویں نمبر پر تھا۔

پاکستان میں جہاں ہماری حکومتیں تعلیم کو اپنی حکومت بچانے کی مقابلے میں اہمیت نہیں دیتیں وہیں پرائیویٹ آرگنائزیشنز اپنا کردار ادا کرتے ہوئے تعلیم کے میدان میں جہالت کے اندھیروں کو مٹانے کیلئے کوشاں ہیں مگر ان ادارو ں میں ایک آدمی کا تعلیم حاصل کرنا انتہائی مشکل ہیل۔ تعلیم کیلئے غربت کا خاتمہ ضروری ہے جسکی طرف کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ۔

انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ تعلیم کے دئے سے جلنے والی روشنی میں غریب آدمی کا لہو تیل بن کر جل رہا ہے او ر ہم کہہ سکتے ہیں کہ جان بوجھ کر تعلیم کو انتہائی مہنگا اور مشکل بنا دیا گیا ہے کہ غریب اور محنت کش تک اسکی رسائی نہ صرف مشکل بلکہ نا ممکن بھی ہے۔پاکستان میں 26 فیصد بچے اسکول جاتے ہیں اور انمیں سے بھی بہت سے بچے بوجہ غربت بھا گ جاتے ہیں۔ اور بمشکل مڈل یا میٹرک تک تعلیم حاصل کر پاتے ہیںَ ۔انہیں تعلیم حاصل کرنے کا شوق تو ہوتاہے مگر وہ کالج اور یونیورسٹیوں کی بھاری بھرکم فیسیں ادا کرنے سے قاصر ہوتے ہیں ۔ وہ بھاری بھرکم فیسوں کے اس اژدھے سے خوفزدہ ہو کر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا تصور بھی نہیں کر پاتے۔

ہمارے آئین کا آرٹیکل 25-A پانچ سال سے سولہ سال تک کے بچوں کو مفت تعلیم فراہم کرنے کا حق دیتا ہے۔ مگر زمینی حقائق اسکے با لکل بر عکس ہیں۔ تعلیم ہر بچے کا آئینی حق ہے تاکہ وہ معاشرے کا فعال رکن بن کر ایک قابل احترام زندگی گزار سکے۔ ایک بہت بڑا جھوٹ ہے جو نعرے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ تعلیم کے میدان میں استعمال ہونے والا میٹیریل جس میں کتابوں کے علاوہ کاپیاں، رجسٹر، پین، پنسلیں، ربڑ ، پنسل تراش، کاغذ، ربڑ، سیاہی، قلم، جوتے، وردی، بستے اور دوسری متعلقہ تمام چیزیں انتہائی مہنگی ہیں جن پر ٹیکس عائد ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایک غریب آدمی کے بس کا روگ نہیں ہے کہ وہ تعلیم حاصل کرسکے۔ غربت اور جہالت کی وجہ سے ہمارے یہاں پونے دو کروڑ بچے ایسے ہیں جو اسکول نہیں جاتے اور وہ غربت کی وجہ سے اپنے ماں باپ کا پیٹ پالنے کیلئے مختلف قسم کے چھوٹے چھوٹے کا م کرتے ہیں جن میں پھیری لگا کر چیزیں فروخت کرنا، ورکشاپس میں کام کرنا، ہوٹلوں میں چھوٹے کے روپ میں بیرہ گیری کرنا اور برتن دھونا، گھروں میں کام کرنا، گاڑیاں دھونا، بھٹوں پر کام کرنا اور کچرا اکٹھا کرنا وغیرہ وغیرہ شامل ہیں انمیں سے کچھ بچے مانگتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں یہ بچے جہاں محنت مزدوری کرکے اپنے گھر والوں کا پیٹ پالتے ہیں وہیں یہ بچے جنسی استحصال کا بھی شکار ہیں اور اس جنسی استحصال کی رپورٹ نہیں ہوتی جو ہمارے معاشرے کی زوال پزیری اور انحطاط پذیری کی طرف نشاندہی کرتا ہے ۔

ہمارے معاشرے میں تعلیم کے معاملے میں دینی مدارس کا کردار بھی بہت اہم رہا ہے مگر انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ انمیں سے کچھ دینی مدارس انتہائی بھونڈا کردار ادا کر رہے ہیں اور بچوں کو فرقہ واریت کا درس دیکر نفرتیں پھیلائی جاتی ہیں جو دہشت گردی پر منتج ہوتی ہیں۔ مدرسوں میں پڑھنے والے یہ غریب او ر دور دراز سے آئے ہوئے بچے جو مدرسوں کے ہاسٹل میں رہائش پذیر ہوتے ہیں یہ اچھی خوراک اور لباس کے معاملے میں بد ترین حالات کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ یہ بچے جہاں زکواۃ کے پیسوں پر پلتے ہیں وہیں یہ گھر گھر جا کر روٹیاں بھی مانگتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جس سے نہ صرف ان بچوں کی انا مجروح ہوتی ہے بلکہ انمیں مانگنے کو رجحان بھی بڑھتا ہے ۔ مدرسوں میں پڑھنے والے یہ بچے بھی جنسی استحصال کا شکار ہوتے ہیں جو ہمارے لئے انتہائی باعث شرم ہے۔ ان بچوں کی ساتھ جہاں جنسی لواطت کا کھیل کھیلا جاتا ہے وہیں انہیں لوہے کی زنجیروں میں قید رکھا جاتا ہے، انکی مار مار کر ہڈیاں توڑ دی جاتی ہیں، کھانے پینے کا انتہائی گندہ نظام ہوتا ہے جو حفظان صحت کے اصولوں کے منافی ہے۔ غیر محفوظ رہائش اور گندے بستر ہوتے ہیں جہاں بچے بیماریوں کا شکا ہو جاتے ہیںَ ۔ ان مدارس میں انتہائی غیر سائینسی اور غیر مہذب تعلیم دی جاتی ہے۔ بچوں کو مادر زاد گالیاں دیکر انکی انا کو مجروح کیا جاتا ہے اور معیار تعلیم انتہائی گھٹیا ہوتاہے۔دینی مدارس میں پڑھنے والے بچے جہاں سائینسی تعلیم سے نا آشنا ہوتے ہیں وہیں وہ کسی بھی قسم کی ٹیکنیکل تعلیم سے استفادہ نہیں کر پاتے ۔ سائینسی تعلیم جہاں ہمارے ازہان میں روشنی کی شمع روشن کرتی ہے وہیں ہمیں اپنے ارد گرد کے ماحول کو سمجھنے او ر کائینات میں پائے جانے والے اجرام فلکی اور دوسرے سائینسی علوم جن میں فزکس کیمیسٹری، بیالوجی، زولوجی، کمپیوٹر، ریاضی، جغرافیہ ، تاریخ، نفسیات کے علوم شامل ہین جن سے استفادہ کر کے ایک طالبعلم اس کائینات کے علوم پر بحث کرتا ہے اور انہیں جاننے کی کوشش کرتا ہے اور روزمرہ زندگی میں رونما ہونے والے واقعات کو زیر بحث لا کر انکی کھوج لگاتا ہے۔

تعلیم کی ترقی اور ترویج کیلئے لازمی ہے کہ بچونکے لئے تعلیم کے مواقع پیدا کئے جائیں۔ انمیں تعلیم حاصل کرنیکا شوق پیدا کیا جائے جسکے لئے بچوں کو مقامی طور پر اعلیٰ تعلیمی پروگرام شروع کئے جائیں تاکہ بچوں میں تعلیم حاصل کرنے کا شوق پیدا ہو او ر وہ معاشرے کے محنتی اور فعال رکن بن کر اپنی خدمات معاشرے کیلئے وقف کر سکیں۔مذید تعلیمی اداروں کا قیام عمل میں لایا جائے اور تعلیم کے میعار کو بلند کرنے کیلئے اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ بھرتی کیئے جائیں۔جو تعلیم کے میدان میں کارہائے نمایاں انجام دے سکیں ۔ اساتذہ میں بچوں کیلئے تربیتی پروگرام متعارف کروا کر انہیں بچوں کی نفسیات کے علم سے روشناس کرایا جائے تاکہ وہ بچوں کو انکی نفسیا ت کے مطابق تدریس کے عمل کو جاری رکھیںَ۔

برائے نام بجٹ ، پست شرح خواندگی، نظام تعلیم کی بربادی، تعلیمی اداروں میں داخلے لئے این ٹی ایس ٹیسٹ ، سرکاری شعبے میں تعلیمی اداروں کی کمی، تعلیمی سہولیات کا فقدان تربیت یافتہ اساتذہ کا نہ ہونا، غربت، امن و امان کی صورت حال، تعلیمی مساوات کا فقدان، معیاری نصاب کا نہ ہونا، تعلیم کا دینی و سائینسی(جدید تعلیم) دو دھڑوں میں منقسم ہونا کئی ایسے باہم مربوط مسائل ہیں جو ہماری تعلیم کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں قومی سطح پر سیمینار اور کانفرنسیں منعقد کروانا ملک بھر سے ماہرین تعلیم کو بلا کر انکی تحقیق سے استفادہ کرنا اور بچوں سے ان نامور شخصیات کی ملا قات کروا کر بحث و تمحیص کے مواقع فراہم کئے جائیں تاکہ بچوں میں اعتماد بحال ہو سکے۔دوسری طرف پرائیویٹ تعلیمی اداروں نے تعلیم کو کمرشل بنا دیا ہے اور یہ وباء جہاں تعلیم کا بیڑی غرق کر رہی ہے وہیں یہ طلباء سے فیسوں کے نام پر پیسے بٹور رہے ہیںَ پرائیویٹ اسکولوں نے اپنی فیسوں میں بے تحاشا اضافہ کر دیا ہے جس سے طلباء کی پریشانیوں میں روزبروز اضافہ ہو رہا ہے۔ ان اسکولو ں میں انتہائی مہنگی کتابیں اور ان سے متعلقہ سٹیشنری اور دوسری اشیاء انتہائی مہنگی ہیں جو ایک عام آدمی کیلئے نا قابل برداشت ہے۔ بڑے پرائیویٹ ایک اژدھے کی صورت اختیار کر چکے ہیں اور اپنی اجارہ داری قائم کر چکے ہیں جنکا تعلیم نظام عام سرکاری تعلیمی ادارو ں سے مختلف ہے اور یہاں پر جو تعلیم دی جاتی ہے وہ ہماری معاشرتی، ثقافتی اور معاشی اساس کے خلاف ہے جس سے بچے بے راہ روی کا شکار ہو رہے ہیںَ۔ یہ اسکول محکمہ تعلیم کے معیار کے ہرگز مطابق نہیں ہیں اور بچوں کیلئے سہولیات کا فقدان ہے۔ ن مناسب کمرے اور کھیل کود کیلئے مناسب گراؤنڈ نہیں ہیں اور نہ ہی تفریحی مواقع ہیں جس سے بچے جسمانی طو ر پر کمزور رہ جاتے ہیں۔ آئے روز حیلوں بہانوں سے مختلف مدات میں پیسے بٹورنا انکا معمول بن چکا ہے مگر تا حال حکومت نے اسطرف کوئی توجہ نہیں دی ہے جو انتہائی خطرناک ہے۔ ان تعلیمی اداروں کی فرینچائزز کو مختلف شہروں میں فروخت کیا جاتا ہے جس سے کروڑوں روپے کمائے جاتے ہیں جو تعلیمی نظام میں خطرناک رجحان کو فروغ دے رہا ہے اور کمرشلائیزیشن کے راستے پر گامزن ہیں جس سے نہ صرف طلباء کے اخراجات میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ تعلیم کا معیار بھی گر چکا ہے انکی تعداد ہزاروں میں ہے اور مالکان کی چاندی ہے مگر حکومت نے اسطرف سے آمکھیں بند کی ہوئی ہیں۔

حکومت کو چاہیے کہ پیشہ وارانہ اور تکنیکی تربیت پر بھی بھرپور توجہ دے تاکہ ماہر اور ہنر مند نوجوان پیدا ہوں مگر ایسا نہیں ہے وہی پرانا مخدوش نظام غیر تیکنیکی اور غیر معیاری تیکنیکی تعلیم ۔ٹیکنیکل تعلیمی اداروں میں اوزاروں کی کمی اور جو ہیں وہ بھی وقت کے ساتھ ساتھ پرانے اور متروک ہو چکے ہیں نئے آلات اور کمپیوٹرائزڈ مشنیری اور لیب کی کمی جس سے طلبا ء بین الاقوامی معیار کے مطابق تعلیم حاصل نہیں کر پاتے اور وہ بے روزگار ہیں۔

ہم حکومت اور چیف جسٹس صاحب کی توجہ اس گھمبیر مسلئے کی طرف دلاتے ہوئے مطالبہ کرتے ہیں کہ جہاں اور چھوٹے چھوٹے مسائل پر ازخود نوٹس لیا جا رہا ہے وہیں ہمارے بچوں کے مستقبل کو مد نظر رکھتے ہوئے ان مگر مچھوں پر بھی ہاتھ ڈالا جائے تاکہ تعلیم کو کمرشلائزڈ ہونے سے بچایا جائے اور تعلیم کے مواقع ہر ایک کو برابر میسر آ سکیں۔

Syed Anis Bukhari
About the Author: Syed Anis Bukhari Read More Articles by Syed Anis Bukhari: 136 Articles with 155921 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.