بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم،لَقَدْکَانَ
لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃ ،لِمَنْ کَانَ یَرْجُوْ ا
اللّٰہَ وَالْیَوْ مَ الْاٰخِرِ وَ ذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْرًا۔(پارہ
21الاحزاب، رکوع 3)
’’بے شک رسول اﷲ ﷺ کی پیروی بہتر ہے اس کے لئے کہ جو اﷲ اور پچھلے دن کی
امید رکھتا ہو اور اﷲ کو بہت یاد کرے ۔‘‘
یہ آیت کریمہ بھی حضور اکرم ﷺ کی نعت ہے اور اس میں مسلمانوں کو ہدایت ہے
کہ اگر تم اﷲ سے کچھ انعام کی امید رکھتے ہو اور قیامت کی بہتری چاہتے ہو
تو رسول اﷲ ﷺ کی زندگی پاک کو اپنی زندگی کے لئے نمونہ بنالو اور ان کی
پیروی کرو! اس میں دو طرح سے حضور علیہ السلام کی صفات حمیدہ کا ذکر ہے :
ایک تو یہ کہ ان کی زندگی پاک کو اپنے لئے مشعل راہ بنانا کامیابی کا ذریعہ
ہے اور یہی معنی ہیں وسیلہ کے ۔اﷲ کے محبوب علیہ السلام مسلمانوں کے لئے
وسیلہ عظیم ہیں۔
دوسرا اس طرح کہ یہ حکم ہر مسلمان کو دیا گیا ہے ،خواہ کسی ملک کا ہو یا
کسی وقت کا ہو ۔مطلب یہ ہوا کہ قیامت تک تمام مسلمان اپنی زندگی حضور علیہ
السلام کے تابع کر دیں اور ظاہر ہے کہ مسلمانوں میں بعض تو بادشاہ ہوں گے
اور بعض وزیر ،بعض حاکم ،بعض مالدار ،بعض غریب ،بعض گھر والے اور بعض تارک
الدنیا ،اب ہر شخص چاہتا ہے کہ میری زندگی حضور اکرم ﷺ کی زندگی کے ماتحت
ہو ،تو اس قدر فرق زندگی کے ہوتے ہوئے سب لوگ کس طرح حضور اکرم ﷺ کی پیروی
کریں؟
تو اب اس آیت سے یہ نتیجہ نکلا کہ ہمارے محبوب کی زندگی پاک ایسی بے مثال
اور انوکھی ہے کہ دنیا میں ہر شخص اپنے لئے اس کو مثال بنا سکتا ہے ۔ایسی
زندگی عالم میں کسی کی نہیں گزری ۔بطور مثال سمجھو کہ حضرت عیسیٰ علیہ
السلام نے اپنی زندگی ترک دنیا میں گزاری کہ مکان تک نہ بنایا ،ان کی پیروی
تارک الدنیا تو بطور نمونہ کر سکتا ہے ،مگر ایک قاضی بادشاہ اپنے لئے ان کی
زندگی کو مثال نہیں بنا سکتا او رحضرت سلیمان کی زندگی پاک سلطنت و حکومت
کے ساتھ گزری تو سلطان و بادشاہ تو ان کی زندگی کو مثال بنا سکتا ہے مگر
فقیر بے نوا کے لئے ان کی زندگی نمونہ نہیں ۔علی ہٰذا القیاس مگر یہ تو شان
میرے محبوب علیہ السلام ہی کی ہے کہ حاکم ہو چاہے محکوم ،رعایا ہو چاہے
بادشاہ ،مالدار ہو یا فقیر بے نوا ،سب کے لئے دعوت عامہ ہے کہ آؤ میرے
محبوب کی زندگی کو دیکھو اور ان کے نقش قدم پر چلے آؤ!
سرکار ابد قرارحضرت محمدﷺ کی ذات ہر انسان کے ہر درجہ و مراتب کے لئے نمونہ
ہے ،آپ ﷺ متوکل ایسے کہ دو دو ماہ تک گھر میں آگ نہیں جلتی ،صرف کھجوروں
اور پانی پر گزارہ ہے ۔
امت کے مساکین ان حالات مبارک کو دیکھیں اور صبر سے کام لیں۔
اگر سلطنت اور بادشاہت کی زندگی گزارنی ہے تو ان حالات کو ملاحظہ کر و کہ
فتح مکہ ہو گیا ،تمام کفار مکہ سامنے حاضر ہیں جنہوں نے بے انتہا تکلیفیں
پہنچائیں تھیں ۔آج موقعہ تھا کہ ان تمام گستاخوں سے بدلہ لیا جائے ۔مگر ہوا
یہ کہ مکہ فتح فرماتے ہی عام معافی کا اعلان فرمادیا کہ جو ابو سفیان کے
گھر میں داخل ہو جائے اس کو امن ہے ،جو اپنا دروازہ بند کر لے اس کو امن ہے
،جو ہتھیار ڈال دے اس کو امن ہے ،غرض کہ یوسف علیہ السلام پر دس بھائیوں نے
چند گھنٹے ظلم و ستم کیا اور جب سلطنت حضرت یوسف علیہ السلام میں غلہ لینے
کو حاضر ہوئے تو فرمایا:لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ
یَغْفِرَاللّٰہُ لَکُمْ۔’’آج تم پر کوئی سختی نہ ہو گی اﷲ تمہاری مغفرت
فرما دے ۔‘‘
مگر حضور اکرم ﷺ نے 13سال تک اپنے آپ پر اہل مکہ کی طرف سے سختیاں برداشت
کیں ،صحابہ کرام ،اہل بیت عظام ،ان کے گھر والے اور ان حضرات کی جان و مال
عزت و آبرو سب ہی خطرے میں رہے ،آخر کار دیس چھوڑ کر پردیسی ہونا پڑا ،مگر
جب اپنا موقع آیا تو سب کو معاف فرمادیا ،قیامت تک سلاطین اس کو اپنے لئے
مشعل راہ بنائیں۔
اگر مالداری اور تونگری کی زندگی کوئی گزار نا چاہتا ہے تو ان حالات کو
ملاحظہ کرے :
کہ ایک شخص کے کھیت میں لمبی ککڑی پیدا ہوئی ۔تحفہ کے طور پر حاضر بارگاہ
کی ،اس کے عوض میں سونا عنایت فرمایا ۔ایک بار بکریوں سے بھرا ہوا جنگل
حضور علیہ السلام کی ملکیت میں آگیا ،کسی نے عرض کیا :یا حبیب اﷲ ﷺ ! اب اﷲ
تعالیٰ نے حضور علیہ السلام کو بہت ہی مالدار اور تونگر بنا دیا ،فرمایا کہ
تو نے میری تو نگری کیا دیکھی ؟ عرض کیا کہ اس قدر بکریاں ملکیت میں ہیں ،فرمایا
جا تجھ کو سب عطا فرما دیں ۔ وہ اپنی قوم میں یہ مال لے کر پہنچے اور قوم
والوں سے کہا کہ اے لوگو! ایمان لے آؤ ! قسم رب کی محمد رسول اﷲ ﷺ اتنا
دیتے ہیں کہ فقر کا خوف نہیں فرماتے ۔
حضرت عباس رضی اﷲ عنہ کو ایک بار اتنا دیا کہ وہ اٹھا نہ سکے ۔یہ سب واقعات
احادیث میں موجود ہیں اورعلامہ خرپوتی نے ان کو ایک جگہ بیان کیا ہے۔
مالدار یہ واقعات مبارکہ خیال میں رکھیں اور زندگی گزاریں۔
اگر کسی کی زندگی اہل و عیال کی زندگی ہے ،تو خیال کرے کہ میری تو ایک یا
دو یا زیادہ سے زیادہ چار بیویاں ہیں اور کچھ اولاد مگر محبوب علیہ السلام
کی 9یا11بیویاں ہیں ۔اولاد اور اولاد کی اولاد ،داماد ،غلام ،لونڈیاں ،متولیین
اور مہمانوں کا ہجوم ہے ۔پھر کس طرح ان سے برتاؤں فرمایا اور اسی کے ساتھ
ساتھ کس طرح سب کی یاد فرمائی ۔
اگر کوئی تارک الدنیا اپنی زندگی گزارنا چاہتا ہے تو غار حرا کی عبادت ،وہاں
کی ریاضت ،دنیا کی بے رغبتی کو دیکھے اور کتاب الرقاق کی احادیث کا مطالعہ
کرے ۔غرض یہ کہ ساری قومیں اپنے لئے نمونہ بنا کر بے دھڑک دنیا میں آرام
اور ہدایت سے رہ سکتی ہیں۔
قوت و طاقت کا یہ حال ہے کہ جنگ حنین میں حضور اکرم ﷺ خچر پر تنہا رہ گئے
اور مسلمانوں کے پاؤں اکھڑ گئے ،کفار نے خچر کو گھیر لیا ،حضرت عباس اور
ابو سفیان رضی اﷲ عنہما بھاگ کھڑے ہوئے تھے ،جب حضور علیہ السلام نے ملاحظہ
فرمایا کہ کفار نے یلغار کی ہے تو خچر سے اترے اور فرمایا:ہم جھوٹے نبی
نہیں،ہم عبد المطلب کے پوتے ہیں ،کسی کی ہمت اور جرأت نہ ہوئی کہ سامنے
ٹھہر جاتا۔
ابو رکانہ عرب کا مشہور پہلوان تھا ،جو کبھی کسی سے مغلوب نہ ہوتا تھا ۔حضور
اکرم ﷺ نے تین بار اس کو زمین پر دے مارا ،وہ اسی پر حضور اکرم ﷺ کا مداح
بن گیا ۔مگر اس کے ساتھ رحم و کرم کا یہ حال کہ نہ تو کبھی کسی کو برا
فرمایا نہ کسی اہل خانہ کو اپنے ہاتھ سے مارا۔
غرض کہ زندگی کیا ہے ؟ قدرت الہٰیہ کا ایک نمونہ ہے ،اسی لئے آیت کریمہ میں
سب کو عام اعلان ہے کہ سب لوگ اپنے لئے اس مبارک زندگی کو نمونہ بنا لیں۔
اس کے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ کی ذات تمہارے لئے قدرت رب
کا نمونہ یا سیمپل ہے ۔جیسے کہ کاریگر نمونہ پر اپنا سارازور ہنر لگا دیتا
ہے ،اسی طرح دست قدرت نے اس ذات پر اپنے سارے کمالات کااظہار فرمایا اور
جیسے کہ دکان و نمونہ ایک ہی ہوتا ہے اور بازار میں نمائش گاہ خلائق ہوتا
ہے ، ایسے ہی یہ ذات کریم بھی کارخانہ قدرت کا ایک ہی نمونہ ہے جو اس کے
کمالات کا انکار کرے وہ در پر دہ رب کے کمال کامنکر ہے ۔
صاحب روح البیان نے اس جگہ ایک نئی بات کہی کہ یہ تو تفصیل جب تھی جبکہ اس
آیت کے معنی کئے جائیں کہ تمہارے لئے حضور اکرم ﷺ کی پیروی بہتر ہے ،یعنی
اپنی آئندہ زندگی میں ۔مگر دوسرے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ تمہارے لئے
حضور اکرم ﷺ کی پیروی بہتر تھی ،یعنی عالم ارواح میں ہر جگہ حضور اکرم ﷺ
مقتداء رہے ہیں اور تم سب ان کے مقتدی ہو ،وہ اس طرح کہ سب سے پہلے نور
رسول اﷲ ﷺ پیدا ہوا پھر تم سب ،سب سے اول ربانی فیض روح مصطفےٰ ﷺ نے حاصل
کیا بعد میں تم نے ’’الست بربکم‘‘کے جواب میں سب سے پہلے روح رسول علیہ
السلام نے ’’بلیٰ‘‘کہا بعد میں اوروں نے ،صلب حضرت آدم علیہ السلام سے سب
سے پہلے حضور اکرم ﷺ کی روح عہد و پیمان کے لئے باہر تشریف لائی بعد میں تم
سب کی ارواح وغیرہ وغیرہ ۔تو اب لازم ہے کہ آئندہ زندگی میں بھی تم ان کے
پیروکار رہو!
اﷲ تعالیٰ ہمیں رسول کائنات ﷺ کی حقیقی پیروی کی توفیق بخشے ۔آمین |