میڈیا ریاست کا چوتھا ستون سمجھا جاتا ہےاور جس میں صحا
فیوں کا کردار بہت اہم ہوتاہے۔میڈیا کسی بھی دورِحکومت میں اپوزیشن کا کا م
ادا کرتا ہے اور کو ئ بھی میڈیا ہاؤس صحا فیوں کے بغیر نا مکمل ہے۔
ہمیں صحا فت میں سکھا یا جاتا ہے کہ صحا فی کا کام سوال کرنا ہے ۔ سوال
کرنے کے ساتھ ساتھ حکومت ،ریاست اور معاشرے کے غلط اقدام کی نشاندہی کرنا
اور سچ کو سچ لکھنا ہے۔ ہمارے ملک میں صحافت ک نام پہ گورکھ دھندا بنا ہوا
ہے۔جس سیاست دَان کا زور بھاری ہوتا ہے صحافی بھی اس کے گن گا نے لگتے ہیں
جس کو عام زبا ن میں لفافہ صحافت کہا جا تا ہےاور اس کی سرپرستی میڈیا
مالکان کرتے ہیں۔جس میڈیا ہاؤس کو کسی بھی سیاسی یا سما جی لوگوں سے
اشتہارات یا پیسے ملتے ہیں ان کے خلاف بڑی سے بڑی بات دابا دی جاتی ہے اور
ان ک چھوٹے چھوٹے عمل کو بڑھا چڑھا کے پیش کیا جاتا ہے۔صحا فت ایک
غیرجانبدار پیسہ ہے لیکن آج کے اس دور میں آکو جانبداری صاف دیکھے گی جو کہ
ایک عام آدمی بھی محسوس کرسکتا ہے۔
میں بحیثیت خود ایک صحافی بہت افسوس ہوتا ہے کہ صحافی بدلتی دورِ حکومت کے
ساتھ ساتھ اپنے رنگ بدلتے ہیں۔
بازیچۂ اطفال ہے دنیا میرے آگے،
ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے ۔ (غالبؔ) |