اشفاق احمد کہتے ہیں کہ میں جب اٹلی میں تھا تو میرے خلاف
ایک پرچہ درج ہوگیا اور اور مجھ کو عدالت میں پیش کیا گیا جب میں عدالت میں
حاضر ہوا تو جج نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کیا کرتے ہیں تو میں نے بتایا کہ جی
میں ایک استاد ہوںاور فلاں کالج اور یونیورسٹی میں پڑھاتا ہوں تو وہ فورا
کھڑا ہوگیا اور بولا oh no teacher in court یہ کہنا تھا کہ ہر طرف سے یہ
آواز آنا شروع ہوگئیں teacher in court پھر اس نے حیرانگی سے کہا ٹیچر کا
عدالت میں کیا کام اس نے آرڈر جاری کیا کہ میرے لئے بیٹھنے کے لیے کرسی کا
انتظام کیا جائےمیرے لیے کرسی کا انتظام کیا گیا جب تک عدالت لگی رہی سب
لوگ کھڑے رہے اور میں بیٹھا رہا اور میرے ساتھ ایسا سلوک کیا گیا کہ جیسے
میں بہت ہی اعلی قسم کا شہری ہوں اٹلی کی عدالت میں آنا میرے لیے ایک
خوشگوار تجربہ ثابت ہوا اور تب مجھے پتہ چلا کہ ان کی ترقی کا راز استاد کی
عزت میں ماخوذ ہے کل آپ نے بھی مملکت خداداد میں ایک بوڑھے شخص کو ہتھکڑی
لگا کر عدالت اور میڈیا کے سامنے پیش کرنے کا تماشہ دیکھا ہو گا ۔ ڈاکٹر
مجاہد کامران سابق وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی پر غیر قانونی بھرتیوں کرنے
کا الزام ہے مانا کہ کسی قسم کی کرپشن اور بدعنوانی کی حمایت نہیں کی جا
سکتی لیکن یہ کہاں کا انصاف ہے کہ تحقیقات مکمل ہونے سے پہلے ہی محض الزام
کی بنیاد پر کسی معزز استاد کی یوں تذلیل کی جائے ۔ کیا نیب والوں کو پتہ
ہے کہ وائس چانسلر کوئی سیاسی پوسٹ نہیں ہوتی کہ جسے چاہا بٹھا دیا بلکہ اس
کے لئے پی ایچ ڈی۔ سالوں کا تجربہ اور کافی تعداد میں ریسرچ پیپرز درکار
ہوتے ہیں وہ بھی غیر ملکی ریسرچ جرنلز میں ۔پہلی بات تو یہ کہ ان پر ابھی
الزام ثابت نہیں ہوا اور اگر ثابت ہو بھی جائے تو ہمارے معاشرے میں استاد
کی یہ عزت کے اس کو ہتھکڑیاں لگا کر عدالت میں پیش کیا جائے اور اربوں اور
کھربوں کی چوری کرنے والوں کو پروٹوکول کے نام پر آزاد چھوڑ دیا جائے ۔بات
ابھی یہاں تک ختم نہیں ہوئی بلکہ سرگودھا یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر
ڈاکٹر محمد اکرم چوہدری پر کیمپس کی فرنچائز دیتے ہوئے قوائد و ضوابط پورے
نہ کرنے کا الزام لگا ہے ۔ نیب کی پھرتیاں دیکھیں کہ ریٹائرڈ پروفیسر صاحب
کو فوری نہ صرف گرفتار کیا بلکہ ہتھکڑی لگا کر میڈیا کے سامنے تماشا بھی
لگایا ۔ مانا کہ کسی قسم کی کرپشن اور بدعنوانی کی حمایت نہیں کی جا سکتی
لیکن یہ کہاں کا انصاف ہے کہ تحقیقات مکمل ہونے سے پہلے ہی محض الزام کی
بنیاد پر کسی معزز استاد کی یوں تذلیل کی جائے ۔ اس سے پہلے بہاؤ الدین
زکریا یونیورسٹی ملتان کے وائس چانسلر ڈاکٹر خواجہ علقمہ کے ساتھ بھی یہی
سلوک کیا گیا تھا ۔ انہیں بھی خطرناک مجرموں کی طرح ہتھکڑی لگا کر میڈیا کے
سامنے پیش کیا گیا ۔ بعد ازاں ان پر الزامات ثابت ہوئے یا نہیں اس بارے
میڈیا یا نیب نے نہیں بتایا لیکن ایک استاد کی ساری عمر کی عزت تو داؤ پر
لگ گئی بلکہ تباہ ہو گئی ۔ ان کے ہزاروں کی تعداد میں طلبہ نے بھی ضرور یہ
تماشے دیکھے ہوں گے اور سبق پکڑا ہو گا کہ کسی نے زندگی میں استاد بننے کی
ذلت نہیں اٹھانی بلکہ راؤ انوار یا شرجیل میمن بننے کی "عزت" کمانی ہے
کیونکہ کوئی مائی کا لال قتل اور اربوں کی کرپشن کے باوجود انہیں ہتھکڑی
لگانے کی جرات نہیں کر سکتا ۔ ان کے لئے ملک کی اعلی ترین عدالت کے
پروٹوکول والے خفیہ دروازے بھی کھل جاتے ہیں لیکن اعلی ترین تعلیم یافتہ
سکالرز اور ہزاروں کے اساتذہ کرام کو محض الزام پر ہتھکڑی لگا کر پیش کیا
جاتا ہے ۔ بعد میں الزام ثابت ہو یا نہیں اس سے کسی کو کوئی غرض نہیں ہے ۔
معاشرے کے ان کمی کمینوں کو احساس ہونا چاہیے کہ وہ کس شودر طبقے سے ہیں
اور ان کی اوقات کیا ہے ۔ چند روز قبل صوبائی وزیر تعلیم مراد راس نے اپنے
ویڈیو پیغام میں سکولز اساتذہ کرام کو تضحیک آمیز انداز میں دھمکی دی تھی ۔
بعد ازاں طالب علم پر تشدد کا وہ واقعہ بھی جھوٹ ثابت ہوا ۔ کالج پروفیسرز
کمیونٹی بھی کئی سالوں سے اپنے چند بنیادی حقوق کے لئے سرگرم ہیں لیکن کوئی
ان کا پرسان حال نہیں ۔ جو معاشرہ راؤ انوار اور شرجیل میمن جیسوں کو عزت
دے اوڑ قانون بے بس ہو جائے وہاں استاد کو کیا مقام دیا جا سکتا ہے ۔ |