معروف سکالر،استاد اور مصنف جناب اشفاق احمد کی تصنیف ’’
زاویہ ‘‘میں ٹیچر ان دی کورٹ ایک اہم عنوان ہے۔جس کی مثال ہر کوئی دے رہا
ہے۔چیف جسٹستا صدر مملکت ، وزیر، مشیر سب متوجہ ہیں۔ اٹلی میں اشفاق صاحب
اردو کے پروفیسر تھے۔موٹر سائیکل کا چالان ہو اتو انہیں عدالت کے کٹہرے میں
لایا گیا۔اشفاق احمد لکھتے ہیں۔ جج صاحب نے کہا’’ عدالت آپ سے پوچھتی ہے کہ
آپ کون ہیں اور آپ کا پیشہ کیا ہے؟‘‘۔ میں نے کہا ، میں ایک ٹیچر ہوں۔
پروفیسر ہوں، روم یونیورسٹی میں۔ تو وہ جج صاحب کرسی کو سائیڈ پر کر کے
کھڑے ہو گئیاور اعلان کیا،’’ ٹیچر ان دی کورٹ، ٹیچر ان دی کورٹ‘‘(استاد
عدالت میں)۔ جیسے اعلان کیا جاتا ہے اور وہ سارے اٹھ کر کھڑے ہو گئے، منشی
، تھانیدار، عمل دار، جتنے بھی تھے اور جج نے حکم دیا ’’فوری طور پر کرسی
لائی جائے،ایک استاد عدالت میں آگیا ہے‘‘۔ جج نے کہا، ’’ اے معزز استاد !اے
دنیا کو علم عطا کرنے والے استاد! اے محترم ترین انسان! اے محترم انسانیت!
آپ نے ہی ہم کو عدالت اور عدل کا حکم دیا ہے، اور آپ ہی نے ہم کو یہ علم
پڑھایا ہے، اور آپ ہی کی بدولت ہم اس جگہ پر براجمان ہیں۔ اس لئے ہم آپ کے
فرمان کے مطابق مجبور ہیں۔ عدالت نے جو ضا بطہ قائم کیا ہے ، اس کے تحت آپ
کو چیک کریں، باوجود اس کے کہ ہمیں اس بات پر شرمندگی ہے، اور ہم بے حد
افسردہ ہیں کہ ہم ایک استاد کو جس سے محترم اور کوئی نہیں ہوتا، اپنی عدالت
میں ٹرائل کر رہے ہیں، اور یہ کسی بھی جج کے لئے انتہائی تکلیف دہ موقع ہے
کہ کورٹ میں، کٹہرے میں ایک استاد مکرم ہو ، اور اس سے ٹرائل کیا جائے‘‘۔جج
نے عدالت میں ایک استاد کے ساتھ جس طرح احترام اور عقیدت بھرے جذبات کا
اظہار کیا، یہ انمول ہیں۔ ان سے ہی مغرب کی ترقی کے راز کا پتہ چلتا ہے۔
وہاں سب سے زیادہ محترم استاد کو ہی سمجھا جاتا ہے۔
ترقی پذیر ممالک میں صورتحال اس کے بر عکس ہے۔ سرکاری سکولوں ، کالجوں،
یونیورسٹیوں میں استاد کا کوئی احترام نہیں۔ پرائیویٹ اداروں میں صورتحال
مزید سنگین ہے۔ طلباء یہ سمجھتے ہیں کہ وہ پیسے دے کر تعلیم حاصل کرتے ہیں۔
اس لئے وہ استاد کے احترام یا ادارے کی کسی پالیسی ، قواعد و ضوابط پر عمل
کرنے کے پابند نہیں۔ اس کاوہ اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ نجی تعلیمی اداروں
کے منتظمین بھی دکانداروں جیسا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ہمیں بزنس میں یہ
پڑھایا جاتا ہے، ’’ گاہک ہی ہمیشہ ٹھیک کہتا ہے‘‘،۔ ایم بی اے کے کورس میں
یہی پڑھایا جاتا ہے۔ پہلے سنا تھا ’’ باس از آل ویز رائٹ‘‘۔ لیکن اب سارا
نظام کسٹمر کے ارد گرد گھومتا ہے۔ کسٹمر کی خوشی کے لئے جیسے ہزار جھوٹ
معاف کر دیئے گئے ہیں۔ اس لئے نجی تعلیمی اداروں سے کیا گلہ شکوہ کریں۔
ٹیوشن سنٹرز اور کوچنگ سنٹرزکا بھی یہی حال ہے۔ اس پر چیک کون کرے گا۔
پالیسی کون بنائے گا۔ ایک نہیں درجنوں ادارے ہیں۔ صرف سرکاری خزانے پر بوجھ۔
پاکستان میں ایک وزارت تعلیم و تربیت ہے۔ جس کے تحت بے شمار ادارے ہیں۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن۔ نیشنل ووکیشنل اینڈ ٹیکنیکل ٹریننگ کمیشن۔ اکیڈمی آف
ایجوکیشنل پلاننگ اینڈ منیجمنٹ۔ فیڈرل بورڈ آف انٹر میڈیٹ اینڈ سکینڈری
ایجوکیشن۔ نیشنل ایجوکیشن اسسمنٹ سسٹم۔ نیشنل کمیشن فار ہیومن ڈیوپلمنٹ۔
نیشنل انٹرن شپ پروگرام۔ نیشنل ٹیلنٹ پول۔ نیشنل ٹریننگ بیورو۔ پاکستان
نیشنل کمیشن فار یونیسکو۔ اختر حمید خان نیشنل سنٹر فار رورل ڈیوپلمنٹ۔
پاکستان مین پاور انسٹی چیوٹ۔ فیڈرل ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن۔ اور پتہ نہیں
کیا کیا ادارے ہیں۔ ان کا کام تعلیمی نظام کی بہتری ہے۔ لیکن ان میں افسران
کی فوج ظفر موج نظر آئے گی۔ پاکستان اور تعلیمی نظام سے ان کو کیا غرض ہو
گی۔ افسوس ہے جس نظام سے ملک و قوم کی ترقی اور رشن مسقبل وابستہ ہے، اس
نظام کو صرف افسران اور با اثر لوگوں کی چراگاہ بنا دیا گیاہے۔ استاد اگر
ڈانٹ بھی دے تو مقدمہ قائم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مار نہیں پیار، بہترین
مقولہ ہے۔ لیکن جب گھر میں،پڑوس میں، دوست، رشتہ دار کے پاس بچے کی ہر وقت
، ڈانٹ، ڈپٹ، بے عزتی ہو رہی ہو، اسے مارا پیٹا جاتا ہو، تو استاد سے کیا
شکایت۔ بچے کو مار ، بے عزتی کا عادی بنائیں گے تو یہی کچھ ہو گا۔ جو ڈنڈے
کا عادی بن گیا، وہ پیار سے کیسے سمجھے گا۔ اصل میں قصور ہماری جہالت کا ہے۔
اس نظام کا ہے۔ آپ بچے کو جتنا ماریں گے، اسے روکیں، ٹوکیں گے، وہ اسی
رفتار سے ضدی اور شرارتی بنے گا۔
آپ بچوں کو چوہے ، بلی سے ڈرا کر شیر بنانا چاہتے ہیں۔یہ
کیسے ممکن ہے؟۔ ہمارے بعض اساتذہ کرام سیاست میں بھی سرگرم ہو رہے
ہیں۔سرکاری سکولوں کے نتائج کی شرح دیکھ لیں۔اس کی وجہ سکولوں تعلیم دشمن
ماحول ہے۔ استاد کی تنخواہ بہت کم ہے۔ وہ سکول جائے یا اپنی دکان چلائے یا
اپنا زاتی کام دیکھے۔ اگر چہ یہ بالکل جائز نہیں ۔ اس کا یہ جواز بھی نہیں۔
لیکن بات درست ہے۔بعض دیہی علاقوں میں ٹھیکہ سسٹم ہے۔ دوسرا بڑا قصور نصاب
تعلیم کا ہے۔ اس نصاب میں اخلاقی تعلیم ناپید ہے۔ ہر سکول کا اپنا نصاب ہے۔
کوئی آکسفورڈ، گاباوغیرہ۔ کوئی وفاقی بورڈسے وابستہ ہے تو کوئی علاقائی
بورڈ سے۔ تیسری خرابی علاقائی زبانوں کی حوصلہ شکنی ہے۔ علاقائی زبانیں
لازمی طور پر نصاب کا حصہ ہونی چاہیں۔ اب تو ایک ایک کمرے کے بھی سکول بن
رہے ہیں۔سکولوں میں کم از لیبارٹری، لائبریری، کھیل میدان کا ہونا ضروری ہے۔
کلاس روم ہوادار ہوں ، ان میں روشنی کا بہترین بندو بست ہو۔ پینے کے صاف
پانی، واش روم کا انتظام ہو۔اساتذہ اور طباء کی حاضری یقینی بنائی جائے۔
نصاب تعلیم ایسا ہو کہ جو طالب علم کی زہن سازی کرے۔تا کہ وہ اچھا انسان
اور ذمہ دار شہری بنے۔ تکنیکی اورفنی تربیت پر زور دیاجائے۔ کم از کم
ساتویں جماعت سے ہر طالب علم کی فیکٹری، کھیت یا کسی ادارے میں تربیتی سیشن
ہوں۔ رٹہ سسٹم کے بجائے طلباء کو عملی زندگی میں کچھ کرنے کی تربیت دی
جائے۔ہزاروں کی تعداد میں بے روزگار تعلیم یافتہ نوجوان ہاتھوں میں ڈگریاں
لئے پھر رہے ہیں۔میرٹ کا برا حال ہو گا تو استاد کی بھی بے قدری ہو گی اور
طالب علم بھی ذمہ دار شہری نہ بن سکے گا۔ یہی آگے چل کر عدم بر داشت،انتہا
پسندی کا باعث بنتے ہیں۔جج صاحب نے ایک استاد کو عدالت میں دیکھ کر جو رویہ
اپنایا، وہ معاشرہ اس کا جواز فراہم کرتا ہے اور حق بجانب ہے۔کیا ہم بھی
استاد کو کبھی ایسا مقام و مرتبہ دے سکیں گے؟مگر یہاں نیب نے پنجاب
یونیورسٹی کا سابق وائس چانسلر اور یونیورسٹی آف لاہور کے ریکٹر ڈاکٹر
مجاہد کامران، سابق رجسٹرار پروفیسر ڈاکٹر راس مسعود، پروفیسر ڈاکٹر لیاقت
علی، دو ایڈیشنل رجسٹرار پروفیسر ڈاکٹر اورنگ زیب عالمگیر، پروفیسر ڈاکٹر
کامران عابد کو سر عام ہتھکڑیاں پہنا کر عدالت پیش کیا۔ یہ مقدس شعبہ کی
توہین اور تذلیل ہے۔ یہ لوگ بھی کسی استاد کے شاگرد رہے ہوں گے۔ نیب کے
بقول ان اساتذہ کرام نے اضافی سٹاف تعینات کیا۔ یہ ان کی کرپشن سمجھی گئی۔
اگر سابق وی سی صاحب نے اپنی اہلیہ ڈاکٹر شازیہ قریشی کو پنجاب یونیورسٹی
لاء کالج کا پرنسپل تعینات کرنے میں قواعد کی خلاف ورزی کی تو سزا کا بھی
طریقہ کار ہے۔ یونیورسٹی آف سرگودھا کے بھی سابق وائس چانسلر جناب محمد
اکرم ، رجسٹرار راؤ جمیل سمیت کئی اساتذہ کو گرفتار کیا گیا ہے۔ چونکہ چیف
جسٹس صاحب نے از خود نوٹس لیا ہے۔ امید ہے کہ جوڈیشل تحقیقات کی جائے گی
اور جو کوئی بھی قصوروار پایا گیا اسے سخت سزا دی جائے گی۔
|