مجرم یا حالات کی سختی کا شکار ایک معصوم

A needy person beaten for trying to rob bread for his kids

کچھ دن پہلے ایک خبر میری نظر سے گزری کافی تکلیف ہوئی کہ ہمارے ملک کے حالات کیونکر نہیں سنبھل پا رہےایسا تو ہو کہ ایک انسان اپنی بنیادی ضروریات پوری کر پائے اتنے تو وسائل مہیا کرنا ریاست کی ذمہ داری ہونی چاہیے ایک باپ کے لئے اپنی بھوک برداشت کرنا تو کوئی بہت اذیت کا معاملہ نہیں لیکن جب ایک کفیل ہونے کے باوجود وہ اپنے ماں باپ بیوی بچوں کے لئے تین وقت کی روٹی کا انتظام نہیں کر پاتا تو بہت زیادہ مشکل ہو جاتی ہے

اب ایسے حالات میں جب انسان نہ صرف خود بھوکا ہو بلکہ اس کے بیوی بچے بھی بھوکے ہوں تب اخلاقیات معاشرتی اقدار صیح و غلط کا فرق دھندلا پڑنا شروع ہو جانا ہے اور وہ ایسے ایسے کام جیسے راہزنی ڈکیتی حتی کہ قتل و غارت پر بھی آمادہ ہو جاتا ہے یہاں کون کیا آپشن اپناتا ہے محنت و مشقت یا غلط راستہ یہ ہر انسان کی اپنی اپنی سوچ اور درپیش حالات و واقعات پر منحصر ہے

فیصل آباد میں ایک ادھیڑ عمر سفید داڑھی والے خستہ حال کپڑوں میں ملبوس شخص کو بری طرح سے پیٹا جا رہا تھا جو روٹی چوری کرنے کی کوشش میں مشتعل ہجوم کے ہتھے چڑھا ہوا تھا اور وہاں موجود ہر کوئی حسب توفیق اس آدمی کی عمر رسیدی یا صفائی کا موقع دیے بغیر گھونسوں اور لاتوں سے درگت بنا رہا تھا-

جب ہر کوئی اس بزرگ غربت کے مارے کی مار پیٹ کر کے اپنی تسکین کا سامان پیدا کر چکا تو گالیوں کی صوغات دے کر چلے جانے کو کہہ دیا کہ بھاگ جاوَ نہیں تو پولیس کے حوالے کر دیے جاوَ گے وہ قسمت کا مارا کراہتا ہوا شاید گھر کی طرف جانے لگا کسی نے اس سے چوری کرنے کی وجہ دریافت کی تو اس کی آنکھوں سے آنسووَں کی نہ رکنے والی بارش برسنے لگی اور سسکیاں لینے لگ پڑا-

سبب دریافت کرنے والے نرم دل انسان کی ڈارس دینے پر کچھ بولنے کے قابل ہوا اور کہنے لگا میں کوئی چور نہیں ہوں کتنے دن ہو گئے تھے روز اس چوک میں آ کر کھڑا ہوتا تھا کہ مجھے کوئی مزدوری کے لئے ساتھ لے جائے ہر کوئی آنے والا میری عمر رسیدی ناتواں جسم اور سفید بالوں کو دیکھ کر چھوڑ کر کسی نوجوان کو لے جاتے مزدوری نہ ملنے کے باعث کتنے دنوں سے گھر میں چولہا نہیں جلا تھا جس سے ہر گزرتے دن کے ساتھ میرے گھر والوں کی مسلسل بھوک بچوں کی تکلیف میں اضافہ ہو رہا تھا جسے مزید برداشت میرے بس میں نہیں رہا اور مجھے اس رسوائی کا سامنا کرنا پڑا-

ایسے بہت سے واقعات روزانہ رونما ہو رہے ہیں جہاں غربت کے ماروں کو گالیاں دینے والے اور مار پیٹ کرنے کے لئے تو ہم سب ہمیشہ تیار رہتے ہیں پر افسوس ہمیں کیونکر توفیق نہیں ہوتی کہ اپنے اردگرد موجود بے سہارا ضرورت مند سفید پوش جن کے لئے کسی سے مانگنا مرنے کے مترادف ہو ان کا سہارا بنیں اور دین و آخرت میں اپنی نجات اور کامیابی کو یقینی بنائیں -

مضمون کو اختتام پزیر کرنے سے پہلے ایک درخواست ہے کہ کبھی خود کو اوپر ذکر کیے ہوئے مجبور شخص جو کسی کا بیٹا باپ اور خاوند ہے کی جگہ پر رکھ کر خلوت میں سوچیے گا اور اپنے ضمیر کی آواز کو سن کر عملی جامہ پہنانے کے لئے کوشش ضرور کیجئے گا میں دعوے سے کہہ رہا ہوں سکون اور راحت اور حقیقی کامیابی آپ کا مقدر بنے گی-

آخر میں ایک سوچ کی دعوت اور اس کے کامیاب نتائج کی ضمانت اور یقین کے ساتھ اجازت چاہوں گا اللہ پاک ہم سب کو ایک دوسرے کی تکلیف کا احساس کرنے اور اس سے نجات کے لئے عملی اقدام اٹھانے کی توفیق اور طاقت نصب فرمائے۔ آمین

Syed Zulfiqar Haider
About the Author: Syed Zulfiqar Haider Read More Articles by Syed Zulfiqar Haider: 23 Articles with 25732 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.