حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے روایت کی کہ
حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عنقریب نو عمر لوگ نکلیں
گے جوکہ نہایت تیز طرار اور قرآن کو نہایت فصاحت و بلاغت سے پڑھنے والے ہوں
گے وہ قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ سو جب تم ان
سے ملو تو انہیں مار دو پھر جب (ان کا کوئی دوسرا گروہ نکلے اور) تم انہیں
ملو تو انہیں بھی قتل کر دو یقیناً ان کے قاتل کو اجر عطا کیا جائے گا۔
:: مجمع الزوائد، 6 / 230،
مسندامام احمدبن حنبل، 5 / 36، 44
مستدرک، 2 / 159، الرقم : 2645،
حضرت ابوسعيد خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر عرض
کیا : یارسول اﷲ! میں فلاں فلاں وادی سے گزرا تو میں نے ایک نہایت متواضع
ظاہراً خوبصورت دکھائی دینے والے شخص کو نماز پڑھتے دیکھا۔ حضور نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا : اس کے پاس جاکر اسے قتل کردو۔
راوی نے کہا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اس کی طرف گئے تو انہوں نے جب
اسے اس حال میں (نماز پڑھتے) دیکھا تو اسے قتل کرنا مناسب نہ سمجھا اور
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں (ویسے ہی) لوٹ آئے راوی
نے کہا پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ
عنہ سے فرمایا : جاؤ اسے قتل کرو، حضرت عمر گئے اور انہوں نے بھی اسے اسی
حالت میں دیکھا جیسے کہ حضرت ابوبکر نے دیکھا تھا۔ انہوں نے بھی اس کے قتل
کو ناپسند کیا۔ کہا کہ وہ بھی لوٹ آئے۔ اور عرض کیا : یارسول اﷲ! میں نے
اسے نہایت خشوع و خضوع سے نماز پڑھتے دیکھا تو (اس حالت میں) اسے قتل کرنا
پسند نہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے علی! جاؤ اسے قتل
کردو کہا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تشریف لے گئے، تو انہیں وہ نظر نہ آیا
تو حضرت علی رضی اللہ عنہ لوٹ آئے، پھر عرض کیا : یارسول اﷲ! وہ کہیں
دکھائی نہیں دیا۔ کہا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
: یقیناً یہ اور اس کے ساتھی قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے گلوں سے نیچے
نہیں اترے گا، وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے
پھر وہ اس میں پلٹ کر نہیں آئیں گے یہاں تک کہ تیر پلٹ کر کمان میں نہ
آجائے (یعنی ان کا پلٹ کر دین کی طرف لوٹنا ناممکن ہے) سو تم انہیں (جب بھی
پاؤ) قتل کر دو وہ بدترین مخلوق ہیں۔
:: مسندامام احمدبن حنبل، 3 / 15، الرقم : 11133،
مجمع الزوائد، 6 / 225،
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم ایک شخص کے پاس سے گزرے جو حالت سجدہ میں تھا اور آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نماز کے لئے تشریف لے جا رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
نماز ادا کی اور اس کی طرف لوٹے اور وہ اس وقت بھی (حالتِ) سجدہ میں تھا،
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوگئے پھر فرمایا : کون اسے
قتل کرے گا؟ تو ایک آدمی کھڑا ہوا اس نے اپنے بازو چڑھائے تلوار سونتی اور
اسے لہرایا (اس کی طرف دیکھا تو اس کی ظاہری وضع و قطع کو دیکھ کر متاثر
ہوگیا)۔ پھر عرض کیا : یا نبی اﷲ! میرے ماں باپ آپ پر قربان! میں کیسے اس
شخص کو قتل کر دوں جو حالت سجدہ میں ہے اور گواہی دیتا ہے کہ اﷲ کے سوا
کوئی معبود نہیں اور بیشک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بندے اور
رسول ہیں؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کون اسے قتل کرے گا؟
تو ایک شخص کھڑا ہوا، عرض کیا : میں، تو اس نے اپنے بازو چڑھائے اور اپنی
تلوار سونتی اور اسے لہرایا (اسے قتل کرنے ہی لگا تھا) کہ اس کے ہاتھ کانپے،
عرض کیا : اے اﷲ کے نبی! میں کیسے ایسے شخص کو قتل کروں جو حالت سجدہ میں
گواہی دیتا ہے کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بیشک محمد صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں؟ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کی جان ہے! اگر تم اسے قتل کردیتے تو وہ فتنہ کا اول و آخر تھا (یعنی
یہ فتنہ اسی پر ختم ہو جاتا)۔
::مسندامام احمد بن حنبل، 5 / 42، الرقم : 19536،
مجمع الزوائد، 6 / 225،
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرمایا : حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ مبارک میں ایک شخص تھا جس کی عبارت گزاری اور
مجاہدے نے ہمیں حیرانگی میں مبتلا کیا ہوا تھا۔ (اور ایک روایت میں ہے کہ
یہاں تک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام میں سے بعض
اسے خود سے بھی افضل گرداننے لگے تھے) ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کے سامنے اس کا نام اور اس کی صفات بیان کرکے اس کا تعارف کرایا۔ ایک
دفعہ ہم اس کا ذکر کر رہے تھے کہ وہ شخص آ گیا۔ ہم نے عرض کیا : وہ یہ شخص
ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیشک تم جس شخص کی خبریں دیتے
تھے یقیناً اس کے چہرے پر شیطانی رنگ ہے سو وہ شخص قریب آیا یہاں تک کہ ان
کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا اور اس نے سلام بھی نہیں کیا۔ تو حضور نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے فرمایا : میں تجھے اللہ کی قسم دیتا ہوں
(تمہیں کہ سچ بتانا) کہ جب تو مجلس کے پاس کھڑا تھا تو نے اپنے دل میں یہ
نہیں کہا تھا کہ لوگوں میں مجھ سے افضل یا مجھ سے زیادہ برگزیدہ شخص کوئی
نہیں؟ اس نے کہا : اللہ کی قسم! ہاں (میں نے کہا تھا)۔ پھر وہ (مسجد میں)
داخل ہوا نماز پڑھنے لگا۔ (اور ایک روایت میں ہے کہ پھر وہ شخص مڑا مسجد کے
صحن میں آیا، نماز کی تیاری کی، ٹانگیں سیدھی کیں اور نماز پڑھنے لگا) تو
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس شخص کو کون قتل کرے
گا؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : میں کروں گا سو وہ اس کے پاس
گئے تو اسے نماز پڑھتے ہوئے پایا کہنے لگے۔ سبحان اللہ میں نماز پڑھتے شخص
کو (کیسے) قتل کروں؟ جبکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
نمازیوں کو قتل کرنے سے منع فرمایا ہے۔ تو وہ باہر نکل گئے۔ حضور نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو نے کیا کیا؟ عرض کیا : میں نے اس
حالت میں کہ وہ نماز پڑھ رہا تھا اسے قتل کرنا نا پسند کیا جبکہ آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نمازیوں کو قتل کرنے سے منع کیا ہے۔ آپ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس شخص کو کون قتل کرے گا؟ حضرت عمر رضی اللہ
عنہ نے عرض کیا : میں کروں گا سو وہ اس کے پاس گئے تو اسے اللہ عزوجل کی
بارگاہ میں چہرہ جھکائے دیکھا۔ حضرت عمر نے کہا : حضرت ابوبکر مجھ سے افضل
ہیں لہٰذا وہ بھی (اسے قتل کئے بغیر) باہر نکل گئے۔ تو حضور نبی اکرم صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو نے کیا کیا؟ عرض کیا : میں نے اسے اللہ
تعالٰی کی بارگاہ میں سرجھکائے دیکھا تو (اس حالت میں) اسے قتل کرنا ناپسند
کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کون اس شخص کو قتل کرے گا؟ تو
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : میں کروں گا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے فرمایا : تم ہی اس کے (قتل کے) لئے ہو اگر تم نے اسے پالیا تو (تم
ضرور اسے قتل کر لو گے) راوی نے بیان کیا کہ وہ اندر اس کے پاس گئے تو
دیکھا کہ وہ چلا گیا تھا وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس
لوٹ آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو نے کیا کیا؟ حضرت علی
نے عرض کیا : میں نے دیکھا تو وہ چلا گیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
نے فرمایا : اگر وہ قتل کردیا جاتا تو میری امت میں دوآدمیوں میں بھی کبھی
اختلاف نہ ہوتا وہ (فتنہ میں) ان کا اول و آخر تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام
نے بیان کیا میں نے حضرت محمد بن کعب رضی اللہ عنہ سے سنا : فرماتے ہیں :
وہ وہی پستان (کے مشابہ ہاتھ) والا تھا جسے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے قتل
کیا تھا۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ شیطان کا پہلا سینگ
ہے جو میری امت میں ظاہر ہوگا (یا پہلا سینگ ہے جو میری امت میں ظاہر ہوا)
جبکہ اگر تم اسے قتل کر دیتے تو تم میں سے دو آدمیوں میں کبھی اختلاف نہ
ہوتا۔ بیشک بنی اسرائیل میں اختلاف سے وہ اکتہر یا بہتر فرقوں میں بٹ گئے
اور تم عنقریب اتنے ہی یا اس سے بھی زیادہ فرقوں میں بٹ جاؤ گے ان میں سے
کوئی راہ راست پر نہیں ہوگا سوائے ایک کے، عرض کیا گیا : یا رسول اللہ! وہ
ایک فرقہ کون سا ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جماعت (سب
سے بڑا گروہ) اس کے علاوہ دوسرے سب آگ میں جائیں گے۔
:: مجمع الزوائد، 6 / 226.
حضرت طارق بن زیاد نے بیان کیا کہ ہم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ خوارج
کی طرف (ان سے جنگ کے لیے) نکلے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے انہیں قتل کیا
پھر فرمایا : دیکھو بیشک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
: عنقریب ایسے لوگ نکلیں گے کہ حق کی بات کریں گے لیکن وہ ان کے حلق سے
نیچے نہیں اترے گا وہ حق سے یوں نکل جائیں گے جیسے کہ تیر شکار سے نکل جاتا
ہے۔
::نسائ فی السنن الکبري، 5 / 161، الرقم : 8566،
مسندامام احمد بن حنبل، 1 / 107، الرقم : 848، |