کسی مبارک ہستی کی شان میں گستاخی کرنے والے کیا قتل کیا گیا

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فتح (مکہ) کے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو آپ کے سر مبارک پر لوہے کا خود تھا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اتارا تو ایک شخص نے آ کر عرض کیا : (یا رسول اﷲ! آپ کا گستاخ) ابنِ خطل (جان بچانے کے لئے) کعبہ کے پردوں سے لٹکا ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اسے قتل کر دو۔
:: بخاری شریف، کتاب : الحج، باب : دخول الحرم و مکة بغير إحرام، 2 / 655، الرقم : 1749، و کتاب : الجهاد والسير، 3 / 1107، الرقم : 2879، و کتاب : المغازی، باب : أين رکز النبی صلي الله عليه وآله وسلم الرأية يوم الفتح، 4 / 1561، الرقم : 4035
مسلم شریف، کتاب : الحج، باب : جواز دخول مکة بغير إحرام، 2 / 989، الرقم : 1357،
ترمذی شریف، کتاب : الجهاد عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ماجاء في المغفر، و قال : هذا حديث حسن صحيح، 4 / 202، الرقم : 1693،
ابو داود شریف، کتاب : الجهاد، باب : قتل الأسير ولايعرض عليه الإسلام، 3 / 60، الرقم : 2685،
نسائی شریف، کتاب : مناسک الحج، باب : دخول مکة بغير إحرام، 5 / 200، الرقم : 2867،
مسندامام احمد بن حنبل، 3 / 185، 231.232، الرقم : 12955، 13437، 13461، 13542،

عروہ بن محمد نے بلقین کے کسی شخص سے روایت کی کہ ایک عورت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گالیاں دیا کرتی تھی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے دشمن سے میرا بدلہ کون لے گا؟ تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اس کی طرف گئے اور اسے قتل کر دیا۔
:: عبدالرزاق فی المصنف، 5 / 307، الرقم : 9705،
سنن الکبریٰ، 8 / 202،
الصارم المسلول، 1 / 140.

حضرت (عبداللہ) بن عباس ر ضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مشرک شخص نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گالیاں دیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کون میرے دشمن سے بدلہ لے گا؟ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : میں پھر میدان میں نکل کر اسے قتل کر دیا، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مقتول کے جسم کا سامان حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو دے دیا۔
:: عبدالرزاق فی المصنف، 5 / 237، 307، الرقم : 9477،
حلية الأولياء، 8 / 45،
الصارم المسلول، 1 / 154.

حضرت (عبداللہ) بن عباس رضی اﷲ عنھما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو (مسلمان) اپنا دین بدل لے (یعنی اس سے پھر جائے) اسے قتل کر دو۔
:: بخاری شریف، کتاب : الجهاد و السير، باب : لا يعذب بعذاب اﷲ، 3 / 1098، الرقم : 2854،

عبدالملک نے ابوحرہ سے روایت بیان کی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو موسیٰ (اشعری رضی اللہ عنہ) کو (اپنا گورنر بنا کر) نفاذ حکومت کے لئے بھیجا تو خوارج عبداللہ بن وھب راسبی (خارجی سردار) کے گھر میں جمع ہوئے اور اس نے انہیں بلیغ خطبہ دیا جس میں اس نے انہیں اس دنیا سے بے رغبتی اور آخرت اور جنت کی رغبت دلائی اور انہیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر ابھارا۔ پھر کہا : ہمارے لئے ضروری ہے ہم پہاڑوں یا دوسرے شہروں کی طرف نکل جائیں تاکہ ان گمراہ کرنے والی بدعتوں سے ہمارا انکار ثابت ہوجائے۔ ۔ ۔ پھر سب شریح بن ابی اوفی عبسی کے گھر جمع ہوئے تو ابن وھب نے کہا : اب کوئی شہر ایسا دیکھنا چاہئے کہ (اسے اپنا مرکز بناکر) ہم سب اسی میں جمع ہوں اور اللہ تعالیٰ کا حکم جاری کریں۔ کیونکہ اہلِ حق اب تم ہی لوگ ہو
:: بداية والنهاية، 7 / 285.286
تاريخ الأمم والملوک، 3 / 115،

زیاد بن امیہ سے مروی ہے کہ عروہ بن حدیر (خارجی) نہروان کی جنگ سے بچ گیا اور معاویہ کے دور تک زندہ رہا پھر وہ زیاد بن ابیہ کے پاس لایا گیا اس کے ساتھ اس کا غلام بھی تھا تو زیاد نے اس سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا حال دریافت کیا؟ اس نے کہا : ابتدا میں چھ سال تک ان کو میں بہت دوست رکھتا تھا پھر جب انہوں نے بدعتیں شروع کیں تو ان سے علیحدہ ہو گیا اس لئے کہ وہ آخر میں (نعوذ باﷲ) کافر ہوگئے تھے۔ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حال پوچھا؟ کہا : وہ بھی اوائل میں اچھے تھے جب حکم بنایا (نعوذ باﷲ) کافر ہوگئے۔ اس لئے ان سے بھی علیحدہ ہوگیا۔ پھر معاویہ کا حال دریافت کیا؟ تو اس نے سخت گالیاں دیں۔ ۔ ۔ پھر زیاد نے اسکی گردن مارنے کا حکم دے دیا۔
:: الشهرستانی فی الملل والنحل، 1 / 137

ابو طفیل سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں ایک لڑکا پیدا ہوا وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں لایا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اس کے چہرے سے پکڑا اور اسے دعا دی اور اس کا یہ اثر ہوا کہ اس کی پیشانی پر خاص طور پر بال اگے جو تمام بالوں سے ممتاز تھے وہ لڑکا جوان ہوا اور خوارج کا زمانہ آیا تو اسے ان سے محبت ہو گئی (یعنی خوارج کا گرویدہ ہو گیا) اسی وقت وہ بال جو دست مبارک کا اثر تھے جھڑ گئے اس کے باپ نے جو یہ حال دیکھا اسے قید کر دیا کہ کہیں ان میں مل نہ جائے۔ ابو طفیل کہتے ہیں کہ ہم لوگ اس کے پاس گئے اور وعظ و نصیحت کی اور کہا دیکھو تم جب ان لوگوں کی طرف مائل ہوئے ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا کی برکت تمہاری پیشانی سے جاتی رہی غرض جب تک اس شخص نے ان کی رائے سے رجوع نہ کیا ہم اس کے پاس سے ہٹے نہیں پھر جب خوارج کی محبت اس کے دل سے نکل گئی تو اللہ تعالیٰ نے دوبارہ اس کی پیشانی میں وہ مبارک بال لوٹا دیئے پھر تو اس نے ان کے عقائد سے توبہ کی۔
:: مسندامام احمد بن حنبل، 5 / 456، الرقم : 23856،
دلائل النبوة، 1 / 174، الرقم : 220،
مجمع الزوائد، 6 / 243، 10 / 275،

حضرت سائب بن یزید نے بیان کیا کہ ایک دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ لوگوں کے ساتھ بیٹھے دوپہر کا کھانا کھا رہے تھے اسی اثنا میں ایک شخص آیا اس نے (اعلیٰ) کپڑے پہن رکھے تھے اور عمامہ باندھا ہوا تھا تو اس نے بھی دوپہر کا کھانا کھایا جب فارغ ہوا تو کہا : اے امیر المومنین (وَالزَّارِيَاتِ ذَرْوًا فَالْحَامِلَاتِ وِقْرًا) کا کیا معنی ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : تو وہی (گستاخِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ہے۔ پھر اس کی طرف بڑھے اور اپنے بازو چڑھا کر اسے اتنے کوڑے مارے یہاں تک کہ اس کا عمامہ گرگیا۔ پھر فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! اگر میں تجھے سر منڈا ہوا پاتا تو تیرا سر کاٹ دیتا۔
:: هبة اﷲ الالکائی فی اعتقاد اهل السنة، 4 / 634، الرقم : 1136،
شوکانی فی نيل الاوطار، 1 / 155،
عظيم آبادی فی عون المعبود، 11 / 166،
ابن قدامة فی المغنیٰ، 1 / 65، 9 / 8.
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1381669 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.