ٹریفک قوانین کا نفاذ بائیک اور گاڑیوں پر یکساں ہونا چاہیئے

قوم کو ایک ضابطہ اخلاق کا پابند بنانے کے لیے قوانین بنائے جاتے ہیں ۔ قوانین بناتے وقت مذہبی ‘ معاشرتی اور اخلاقی تقاضوں کو ضرور مد نظر رکھاجاتا ہے ۔ آجکل ٹریفک پولیس عدالت عالیہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ‘ ٹریفک قوانین پر سو فیصد عمل درآمدکروانے کا تہیہ کر چکی ہے ۔ یہ خوش آئند بات ہے ‘میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ایسے قوانین کیوں بنائے جاتے ہیں جن پر ہمیشہ کے لیے عمل نہیں ہو پاتا ۔ جیسے ہی ہلمٹ کی پابندی شروع ہوئی ویسے ہی ہلمٹ کی قیمتیں آسمان پر پہنچ گئیں ۔ جو پہلے تین سو سے سات روپے کا تھا وہ ہلمٹ اب دو سے تین ہزار روپے تک جاپہنچا ۔عوام کی قوت خریدپہلے ہی دم توڑ چکی ہے اس لیے یہ معاشی بوجھ تکلیف دہ محسوس ہوتا ہے ۔ اب ایک انوکھا فیصلہ سامنے آیا کہ بائیک کے پیچھے بیٹھنے والا مرد ہو یا عورت‘ بوڑھا ہو یا بچہ ۔ ہلمٹ پہننا لازمی قرا ر دے دیاگیا ۔ایک دن مال روڈ ایک شخص اپنی بوڑھی ماں کو لے کر کہیں جارہا تھا پولیس اہلکار نے رکا ابھی وہ چالان کرنے کے لیے تیار ہوہی رہا تھا کہ بزرگ عورت نے بیٹے سے پوچھا ہلمٹ تو تم نے پہنا ہوا پھر یہ تمہارا چالان کیوں کررہاہے ‘ بیٹے نے بتایا ماں جی یہ کہتے اپنی ماں کو بھی ہلمٹ پہناؤ۔یہ سنتے ہی اس بزرگ عورت نے گالیاں دینی شروع کردیں اور کہا پہلے اپنی ماں کوہلمٹ پہناؤ۔ میں سمجھتا ہوں یہ فیصلہ ہماری معاشرتی اقدار کے برعکس ہے ۔اس پر نہ اصرار ہونا چاہیئے اور نہ چالان ۔ یہ توہین آمیز بات بھی ہے ۔ سکھ برداری نے بھی یہ کہتے ہوئے احتجاج کیا کہ پگڑی پہننا ایمان کا لازمی حصہ ہے‘پگڑی ہم اتار نہیں سکتے اور پگڑی کے اوپر ہلمٹ پہن نہیں سکتے ۔اسی طرح روحانی اور دینی شخصیات بھی دستار / پگڑی کو اپنی شخصیت کالازمی حصہ تصورکرتے ہیں ۔ نیا قانون نافذکرنے والوں کو شاید اس بات کا احساس نہیں کہ متوسط طبقے کے لوگ اپنے بچے اور بچیوں کو تعلیمی اداروں میں ہر صبح چھوڑنے اور واپس بھی لے کر آتے ہیں‘کچھ لوگ کثیر اولاد کا شوق بھی رکھتے ہیں ایسے کتنے ہی لوگ ایک بیگم اور پانچ بچوں کے ساتھ سڑکوں پر گزرتے دکھائی دیتے ہیں۔یہ گزارش بھی کرنا چاہتا ہوں ٹریفک قوانین کا نفاذ صرف موٹر سائیکل سواروں پر ہی نہ کریں ‘ کاروں اور پبلک ٹرانسپورٹ کو ضابطہ قانون کا پابند بنائیں ۔حادثات صرف بائیک پر ہی نہیں ہوتے بلکہ کاروں میں ڈرائیونگ کے دوران موبائل کا بے جا استعمال ‘ سگریٹ نوشی ‘ بیلٹ نہ باندھنے ‘ لائن کی پابندی نہ کرنے ‘ وائٹ لائن سے پہلے نہ رکھنے ‘ اشارہ کھلنے سے پہلے ہی کراس کرنے جیسے ‘ واقعات اب عام سی بات ہوچکی ہے ۔ بہتر ہوگا کہ ڈبل سواری پر ہلمٹ کی پابندی لگانے کی بجائے ٹریفک قوانین کا اطلاق بائیک اور دیگر تمام نجی و سرکاری ٹرانسپورٹ یکساں کیا جائے ۔بطور خاص پولیس اہلکار جو بغیر نمبر پلیٹ اور ہلمٹ پہنے بغیر تین تین سوار ہوکر بائیک چلاتے ہر جگہ دکھائی دیتے ہیں‘چالان کے ساتھ ساتھ ان کے خلاف محکمانہ کارروائی بھی ہونی چاہیئے ۔کیا ای چالان والوں کو صرف عوام ہی نظرآتی ہے اپنے پیٹی بھائیوں کی خلاف ورزیاں کیوں دکھائی نہیں دیتیں۔ بہرکیف صرف موٹرسائیکل سواروں پر تمام پابندیاں لگانا انتہائی ظلم ہے ۔بطور خاص خواتین ‘ بزرگوں اور بچوں کے لیے ہلمٹ کی پابندی قابل نفرت اقدام ہے ۔اس سے معاشرے میں فرسٹریشن اور نفرت کا پیدا ہونا فطری امر ہے ‘ ایسے سخت اور غیر فطری قوانین پر عمل درآمدزیادہ عرصہ جاری نہیں رہ سکتا۔

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 784192 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.