کشمکش سے نکلنے کی صورت

آپس کے اختلاف ، جھگڑے ، دشمنیاں اور کشمکش دیکھ کر دل کڑھتا ہے ۔ میں نے ہر پہلو سے سوچ کر وجہ ڈھونڈنے کی کوشش کی مگر میری ناقص عقل میں سیاسی اختلافات ، ذاتی مفادات ، چودھراہٹ یا دوسرے کو نیچا دکھانے کے علاوہ کچھ نہیں جو کسی طرح سے بھی نیک شگون نہیں ہوتا اور اس طرح کے اشارے یہ نشاندہی کر رہے ہوتے ہیں کہ اس صورتحال میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔

ایسی صورتحال میں صلاحیتیں ، قابلیت اور توانائی فضول یا غلط جگہ پر استعمال ہورہی ہوتی ہے جو سراسر نقصان ہے اور یہ نقصان کی صورتحال کسی بڑے نقصان کا موجب بھی بن سکتی ہے۔

اگر ہم کسی بھی سطح پر اپنے اردگرد کے ماحول میں دوسروں سے پیچھے رہتے جا رہے ہیں تو یوں سمجھ لیجئے کہ ہم بند کمرے یا بند گلی میں ہیں اور ایسی صورتحال میں ہمیں اپنے آپ کو آزاد کرنے کے لئے سوچنے کی ضرورت ہے۔

اپنی سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے۔
ہمارے اس ماحول کے اندر ہماری پوری توجہ کا ایک محور ہوتا ہے جو ہماری مجموعی صورتحال کی وجہ یا مرکز کہہ لیجئے اور پھر اس کے گرد ہم نے اپنا ایک دائرہ متعین کیا ہوا ہوتا ہے جس کے اندر رہ کر ہم اپنی تمام سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہوتے ہیں۔ اور یہ مجموعی صورتحال ہی ہمارا بند کمرہ یا گلی کی صورتحال اختیار کر گیا ہوتا ہے۔

ایسی صورتحال سے نکلنے کے لئے ہمیں اپنا محور ، اس کی لوکیشن یا پھر اس کے گرد دائرے کو تھوڑا یا زیادہ وسیع کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کیونکہ بند کمرے میں ہمارے محوروں کے گرد دائرے جگہہ تنگ ہونے کی وجہ سے کشمکش اور ٹکراو سے دوچار ہو جاتے ہیں ۔

دوسری بات یہ ہے کہ اس صورتحال سے نکلنے کی جب تک ہم خود کوشش نہیں کریں گے کوئی بھی دوسرا ہماری حالت کو بہتر نہیں کر سکتا۔

کوشش یہ ہے کہ ایک تو ہم اپنی حالت کو بدلنے کا ارادہ کرلیں اور دوسرا یہ نیت کرلیں کہ کسی دوسرے کو نقصان پہنچانے کا نہیں سوچنا بلکہ فائدہ دینے کی نیت بنا لیں۔

اب میں آپکو مثال کے ساتھ ساری صورتحال ، اس کے اندر کشمکش پیدا ہونے کا احتمال اور ان کا حل سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔

ہماری چونکہ زیادہ تر آبادی دیہاتی ہے اور دیہاتی علاقوں میں موجود صورتحال تقریباً یکساں نوعیت کی ہی ہوتی ہیں اور گاوں ہمارے ملکی آبادی کی ایک اکائی کے طور پر بھی لئے جاسکتے ہیں۔

فرض کریں کسی دیہات میں دو برادریوں یا گروہوں میں اختلاف ، جھگڑا یا کشمکش کی وجہ بلدیاتی سیاست ہے ۔ تو سیاست ان کا محور ہوا اور ان کا دائرہ ایک یونین کونسل ہے۔ اور وہ اس کشمکش سے نکلنے کی کوئی صورتحال نہیں دیکھ رہے تو اس کا مطلب ہوا کہ وہ ایک بند کمرے میں محصور ہوگئے ہیں اور نکلنے کے خواہاں ہیں تو اس سے نکلنے کی کئی شکلوں میں سے ایک شکل یہ بن سکتی ہے کہ وہ اپنے محور کو بدل لیں تاکہ دائرے میں وسعت کی گنجائش پیدا ہو جائے ۔ وہ اپنے محور ، سیاست کو صوبائی سطح پر لے جاتے ہیں تو دائرہ وسیع ہوجاتا ہے اور اس طرح دوسری برادری کو یونین کونسل کی سطح تک فری سپیس مل جائے گا اور ان کے ساتھ کشمکش والا دائرے ایک دوسرےکی حمائیت میں شامل ہوسکتے ہیں۔

جیسے کہ میں نے پہلے بھی عرض کیا ہے کہ کسی ایسی صورتحال میں ہوں اور چاہتے ہوئے بھی چھٹکارہ حاصل نہ کیا جا سکتا ہو تو یہی حالت بند کمرے یا بند گلی والی صورتحال ہے جو قید سے کسی طرح سے بھی کم نہیں ہے۔

یہ صورتحال سوچوں کی قید کی صورت میں بھی ہو سکتی ہے اور ماحول کی قید کی صورت بھی یا دونوں صورتیں بیک وقت بھی ہو سکتی ہیں۔

جو جہاں کہیں بھی جیسے ماحول میں بھی اس طرح کی کشمکش کی صورتحال سے دوچار ہو تو اس گائیڈ لائین پر عمل کرکے اپنے آپ کو اس قید و بند کی صورتحال سے آزاد کروا سکتا ہے۔

ان سوچوں اور ماحول کی قید کے بند کمرے یا گلی سے باہر نکل کر کھلے نیلے آسمان کے نیچے قدرت کے حسین رنگوں سے بھرے ماحول کی آزادی والئ زندگی میں سانس لے کر تو دیکھئے اس دلکش اور حسین احساس کی لزت آزماء کر تو دیکھئے۔

جب آپ قدرت کے ان حسین رنگوں کی لزت سے آشنائی حاصل کریں گے اور ان کو اپنی سوچوں اور حالات کا مرکز اور محور بنا کر ان کے گرد اپنے دائرہ کو وسعت دے کر اس کا جائزہ لیں گے تو نہ صرف اپنی زندگی میں صاف فرق محسوس کریں گے بلکہ اپنے ارد گرد کے ماحول میں رہنے والی ہر شے اور انسانوں کی زندگی میں بھی خوشیاں پھیلتی ہوئی محسوس کریں گے۔

یہ قدرت کے حسین رنگ سیاست ، تجارت ، خدمت ، جدت اور ایجادات کی صورت اور مختلف خوشبو اور فلیورز کے ساتھ ہو سکتے ہیں۔

مقابلہ ہونا چاہیے مگر مثبت انداز میں اچھے اور فائدہ مند کاموں اور دوسروں کو فائدہ دینے کی دوڑ میں نہ کہ کشمکش ، لڑائی اور جھگڑوں کی جاہلانہ سوچوں اور ماحول میں۔

اس سوچ کو اور آگے بڑھائیے اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے بعد کی دنیا کو تصور میں لا کر اس دنیا کے ایک گلوبل ولیج ہونے کی شکل کو ذہن میں لائیں تو یہ بات بھی سمجھ آتی ہے کہ اب ہم دنیا کے کسی بھی کونے میں رہ رہے ہوں دنیا سے کٹ کر نہیں رہ سکتے اور ہمارا ہر عمل پوری دنیا کے ماحول پر اچھا یا برا اثر ضرور چھوڑتا ہے۔ لہذا کوئی بھی کام خواہ ہم لوکل ہی سرانجام دے رہے ہوں عالمی سوچ کے ساتھ اور اس کے اثرات کے ذہن میں ہونے چاہیں۔

یہی وہ سوچ اورماحول کی تبدیلی ہے جو دنیا میں سے بے چینی ، کشمکش ، نفرت ، جہالت اور بد امنی کو ختم کرکے امن ، محبت اور سکون کا ماحول پیدا کر سکتی ہے۔

Dr Ch Abrar Majid
About the Author: Dr Ch Abrar Majid Read More Articles by Dr Ch Abrar Majid: 92 Articles with 124279 views By profession I am Lawyer and serving social development sector for last one decade. currently serving Sheikh Trust for Human Development as Executive.. View More