سدرہ کو آج پھر سے اپنی پیٹنگ سب کے سامنے دکھانے کے لئے
بلوایا گیا تھا۔
پوری جماعت میں چہ مگوئیاں ہو رہی تھیں کہ سدرہ کی وجہ سے آج پھر سب کی
محنت اکارت جائے گی۔ایک دو نے تو اپنے منہ بنا لئے تھے کہ اب کی دفعہ پھر
پہلا انعام اس بار سدرہ کے نام ہو جائے گا۔
سدرہ تو اپنے کام کو دکھا کر واپس چلی گئی تھی مگر جماعت میں موجود دو
لڑکیوں نے اس کی تخلیق کردہ تصویر کو ضائع کرنے کا منصوبہ بنا لیا
تھا۔انہوں نےسدرہ کے ہاسٹل کمرے میں جب وہ نہیں تھی تو اس کی تصویر کو وہاں
سے غائب کر دیا تھا۔
ایک لڑکے نے جو کہ یونیورسٹی میں سدرہ سے اگلی جماعت میں تھا ایک بار اپنے
پروفیسر کے سامنے ہی اس کے کام کی تعریف ہوتے دیکھ کر کہا تھا کہ جو بھی ہو
یہ ہے تو ہماری جونیئر۔اس پر سدرہ نے بھی تنگ کر جواب دے دیا تھا کہ آپ
اپنا کام ایسا دکھائیں جو کہ میرے سیکھنے کے قابل ہو۔
سدرہ کو جب اپنی پیٹنگ کے غائب ہو جانے کی اطلاع ملی تو وہ ادھ موئی ہو کر
رہ گئی تھی۔اس کے پاس وقت بھی بہت کم تھا مگر وہ ہمت اور حوصلے والی تھی،
اُس نے کبھی ہار نہیں مانی تھی۔
دوسری طرف اُس کے حاسدوں میں خوشی کی ایک لہر سی دوڑ رہی تھی کہ اب کی
بارسدرہ کامیاب نہیں ہو سکے گی۔
مقابلے کے لئے محض ایک دن باقی تھا۔سدرہ نے نئے سرے اپنی کاوش کو تیار کرنا
شروع کیا۔اُس نے جو تصویر اب کی بار بنائی تھی وہ عین نمائش کے روز ہی سب
کے سامنے پیش ہونی تھی۔
سب کو یہ خیال نہیں تھا کہ اپنی محنت اور کارکردگی سے کوئی بھی اچھا کام کر
سکتا ہے محض جلن سے کسی کا کچھ نہیں بگڑتا ہے۔
سدرہ نے اپنی تصویر کو مقابلے کے دن جب پیش کیا تو سب کے منہ کھلے کے کھلے
رہ گئے۔مقابلے کے منتظمین نے ایک بار پھر سے اس کی تصویر کو انعام دیا اور
باقی سب ایک بار پھر جلن سے جلنے لگے کہ کامیابی پھر سدرہ کے حصے میں آئی
تھی۔ |