عدم برداشت اور ہمارا معاشرہ

پاکستان واحد اسلامی ملک ہے جو نظریہ کی بنیاد پر وجود میں آیا،قائد اعظم نے کہا تھا کہ پاکستان میں مسلمانوں کے ساتھ تمام مذہب کے ماننے والوں کو مذہبی آزادی حاصل ہوگی،اسلام ہمیں انسانیت سے محبت کا درس دیتا ہے،ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام بزور تلوار نہیں بلکہ اپنے حسن اخلاق سے پھیلا،دشمن بھی آپ کی شرافت کی گواہیاں دیتے تھے۔

ہم آج کے اپنے معاشرے کو دیکھیں تو رویوں سے لگتا ہی نہیں کہ ہم مسلمان ہیں،انتہائی معمولی باتوں پر گالم گلوچ اور جھگڑا تو عام بات ہے،اکثر بات قتل و غارت گری تک پہنچ جاتی ہے،چھوٹی چھوٹی باتوں پر قتل کردئیے جاتے ہیں،ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے مگر لگتا ہے ہم نے انسان کے قتل کو ذہنی تسکین کا ذریعہ بنالیا ہے۔

سڑک پر جائیں تو ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دھن میں بعض اوقات گاڑیوں کا تصادم ہوجاتا ہے بس پھر کیا ہے جیسے پنجرے میں قید درندے کو آزاد کرکے اس کے سامنے بکری کھڑی جاتی ہے اور وہ بکری کا جو حال کرتا ہے وہ ہم سب کو معلوم ہے اسی طرح گاڑی سوار حضرات ایک دوسرے کو ادھیڑنے کے درپے ہوجاتے ہیں،میرے گھر کے آگے گاڑی کیوں کھڑی کی،یہ کچرا کس نے پھینکا،مجھے دیکھ کر ہنسے کیوں اور اس طرح کی معمولی باتیں ہمارا پارہ ہائی کردیتی ہیں اور شروع ہوجاتی ہے لڑائی جو اکثر اوقات رائل رمبل میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ایک فریق اپنے حامی بلالیتا ہے تو دوسرا کیوں پیچھے رہے آخر اس کے بھی تو چاہنے والے ہیں جبکہ باقی محلے والے مفت میں تماشا دیکھ کر لطف اندوز ہوتے ہیں۔

ہمیں اپنے معاشرے سے عدم برداشت ختم کرنے کےلئے ضرورت ہے ذہن سازی کی،آگاہی کی،اسلام کا مطالعہ کرنے کی،قرآن کو ترجمے کے ساتھ پڑھنے کی،یہاں علما کرام اور اساتذہ کے ساتھ والدین کا کردار بھی بہت اہم ہے۔

بچے کو چھوٹی عمر سے ہی عدم برداشت کے مسئلے سے آگاہ کریں،اس میں برداشت کا عنصر پیدا کریں تاکہ ہمارا معاشرہ ایک مثالی معاشرہ بن جائے
 

UMAIR ALI
About the Author: UMAIR ALI Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.