دینی مدارس کے نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے ؟اگر ہے
تو اس نظام کو بنانے اورچلانے والے اس کا متبادل تلاش کررہے ہیں کہ اس میں
جدت کیسے ممکن ہے۔23 اکتوبر کو ایک مشہور اخبار میں دینی مدارس کے سسٹم پر
ایک اعتراضی کالم شائع ہوا ۔جس میں کالم نگار نے پوری تحریر میں قوم اور
دینی مدارس کے درمیان شکوک و شبہات کی فضا بنائے رکھی۔ادارتی صفحہ اخبار کی
زبان ہوتاہے اور اسے ملک وملت کے بیچ دوریاں پیدا کرنے کے لیے استعمال نہیں
ہونا چاہیے۔ملک میں جب بھی تعلیمی اداروں کے نظام میں اصلاحات کی بات قومی
سطح پر کی جاتی ہے تو انگلیاں دینی مدارس کے نظام کی طرف اٹھتی ہیں۔دوسری
طرف تعلیمی نظام کی تباہی کو کوئی کنکھیوں سے بھی نہیں دیکھتا ۔ہر کوئی
جانتا ہے کہ فرنگیوں نے اپناتسلط جمانے کے بعداس وقت رائج ایک نظام تعلیم
کو دوٹکڑوں میں کردیا تھا۔ان میں ایک نظام کی ذمہ داری دینی مدارس نے لی
تھی اور آج تک یہ گدڑی نشین اس نظام کومحفوظ کیے ہوئے ہیں۔کالم نگار نے
لکھا کہ’’تمام مکاتب فکر کے علماء کرام اس بات پر متفق ہیں کے مدرسہ نظام
میں اصلاحات ہونی چاہئیں لیکن جب بھی اس پر قومی اسمبلی میں بات کی جاتی ہے
تو مولانا فضل الرحمان اور ان کے ساتھی اسے مغربی ایجنڈے کا نام دے دیتے
ہیں جس کی وجہ سے دینی مدارس میں متفقہ اصلاحات کی بات ادھوری رہ جاتی ہے
‘‘۔اگر تمام مکاتب فکر کے علماء کرام مدرسہ نظام میں صلاحات چاہتے ہیں تو
متفقہ قرار داد کیوں پیش نہیں کی جاتی؟مذہبی سیاسی جماعتیں قومی وبین
الاقوامی سطح پر مدارس کی محافظ ہیں۔اور ان کی نمائندگی بھی انہی مدرسہ
نظام کے لوگ کررہے ہوتے ہیں پھر علماء کرام کا مذہبی سیاسی جماعتوں کے خلاف
اتحاد اور مدرسہ نظام میں اصلاحات پر اتفاق کی بات سمجھ سے بالاتر ہے۔
کالم نگار نے بڑی صفائی سے چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثارکے ایک بیان
کو حوالہ بنا کر مدارس کو اس کا ذمہ دار ٹھرایاجس میں چیف جسٹس صاحب نے ایک
کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ ’’ملک میں ایک کتاب ،ایک بستہ اور
ایک یونیفارم کا نظام کیوں نہیں ؟آئین کے آرٹیکل 25 میں لکھا ہے کہ ریاست
کی ذمہ داری ہے کہ وہ 5 سال سے 16 سال تک کے بچوں کو مفت تعلیم دے‘‘۔اس کا
سادہ سا جواب یہ ہے کہ چیف جسٹس صاحب دونوں تعلیمی نظام کا جائزہ لیں اور
بتائیں کہ 5 سال سے 16 سال تک کے بچوں کو مفت تعلیم کہاں دی جارہی ہے۔دینی
مدارس کا سسٹم ایسا زبردست ہے کہ جہاں لاکھوں غریب بچوں کی کفالت ہوتی ہے
اور علم کی روشنی سے ان کے ذہنوں کو منور کیا جاتا ہے۔یہاں دینی علوم
سیکھنے والے بھی قوم کے بچے ہیں۔یہاں پڑھنے والے قوم کے وہ بچے ہوتے ہیں جن
کے والدین ان کے تعلیمی اخراجات برداشت نہیں کر سکتے ۔مدرسہ انہیں اپنی
آغوش میں لے کر لعل و گوہر بناتے ہیں۔ایک طرف کا وہ نظام ہے جہاں والدین
تعلیمی اخراجات بھرتے کمریں ٹیڑھی کرالیتے ہیں تودوسری طرف مدرسہ کا نظام
ہے جہاں والدین بچوں کو بھیج کر ان کے قیام طعام ،علاج معالجہ اور دیگر
ضروریات کی فکر سے آزاد ہوجاتے ہیں۔انہیں مدرسہ کے نظام پہ اعتمادہوتا
ہے۔جدید تعلیم یافتہ والدین اپنی بچیوں کو کسی کالج ،یونیورسٹی ہوسٹل میں
چھوڑنے کے لیے ہزار بار سوچتے ہیں۔پھر وہ اپنی مالی کشادگی ،تنگ دستی کو
سامنے رکھ کر کوئی فیصلہ کرتے ہیں اوران کی تعلیم مکمل ہونے تک ان کی جان
سولی پہ لٹکی رہتی ہے ۔جب کہ دینی مدارس کے ہوسٹلوں میں ہزاروں طالبات مقیم
ہیں۔ملک کے دوردراز علاقوں سے یہ بچیاں دینی تعلیم حاصل کرنے آتی ہیں ۔مدارس
ان کی مکمل سرپرستی کرتے ہیں ۔یہ قوم کا مدارس کے نظام پر بھروسہ نہیں تو
کیا ہے؟
اگر علماء کی قیادت عوام الناس میں اور مذہبی سیاسی جماعتوں کے قائدین قومی
اسمبلی میں مدارس کے نظام میں اصلاحات کو مغربی ایجنڈے کا نام دیتے ہیں تو
یہ ان کی دوراندیشی ہے۔متحدہ ہندستان میں انگریز نے پہلا حملہ تعلیم پر کیا
تھا ۔آج بھی مغربی لابی کی کوشش ہے کہ وہ کسی طرح اسلامی نظام جو کہ مدارس
کی مرہون منت قائم ہے ثبوتاژ کیا جائے۔سویت یونین کی شکست فاش کے بعد اب
امریکہ اور اس کے اتحادی اسی خوف میں مبتلا ہیں۔انہوں نے اپنا ا ثر و رسوخ
بڑھا کر زر خرید نمائندے چھوڑرکھے ہیں ۔جو دیمک کی طرح مدارس کے نظام کو
چاٹنے کے درپے ہیں اور اس نظام کے خاتمے کی کوششوں میں سے پہلا حملہ ’’
دینی مدارس کے نظام میں اصلاحات‘‘ کا نعرہ ہے۔
کالم نگار نے سیکولر زم ذہنوں کو تقویت دیتے ہوئے اور مدرسہ سسٹم پر تنقید
کرتے ہوئے لکھا کہ ’’سویت یونین کی جنگ میں پاکستانی مدارس کے طلباء کو
بطور ایندھن استعمال کیا گیا ۔مدرسہ نظام میں ان بچوں کی ایسی برین واشنگ
کی جاتی ہے کہ ان معصوموں کو پتا ہی نہیں چلتا کہ وہ عالمی طاقتوں کے اس
گریٹ گیم میں کس کے ہاتھوں کہاں استعمال ہورہے ہیں‘‘۔ہم یہ سمجھتے ہیں کہ
ان ناقدین کاپیٹ مغرب نے اتنا بھر دیا ہے کہ یہ اب ابکایاں کرتے پھررہے
ہیں۔سویت یونین کے خلاف جو لوگ پاکستان سے گئے ان میں دینی مدارس سے وابستہ
افراد کے ساتھ ہر عمر ،ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد شامل تھے۔ان میں
کالج کے نوجوان لڑکوں،یونیورسٹیوں کے فاضلین کی ایک لمبی لسٹ ہے۔دوسرا یہ
جہاد عظیم تھا جس میں مسلمانوں کی دینی حمیت اور ایثار شامل تھا۔کسی
کوبندوق کی نوک پہ نہیں بھیجا گیا تھا۔اس جہاد میں شریک ہونے والوں نے آج
تک یہ شکایت نہیں کی کہ ان کے ساتھ زبردستی کی گئی۔آج تک کوئی ایسا کیس
سامنے نہیں آیا جسے اپنی شرکت سے خوشی نہ ملی ہواور وہ اپنے اس عمل پہ شکوہ
کناں ہو۔امریکہ اپنے اتحادیوں کالشکرلے کر افغانستان میں جس جاہ و حشم کے
ساتھ آیا تھا ،آج ساری دنیا دیکھ رہی ہے کہ امریکہ کے اتحادی اپنا بوریا
بستر گول کر چکے ہیں اور امریکہ راہ فرار تلاش کررہا ہے۔اس جنگ میں پوری
قوم کو دھکیلنے والا کیا کسی دینی مدرسہ سے فارغ التحصیل تھا؟مدرسہ سسٹم
میں تبدیلی کی گنجائش نکالنے والے اور دینی مدارس کے نظام میں اصلاحات کا
راگ الاپنے والے پہلے اپنے دماغ کے لیے ماہر طبیب تلاش کریں تو بہتر ہوگا۔
|