تحریر: سید شاہ زمان شمسی
کبھی کبھار اپنے اندرونی اعضا کو کھلی فضاؤں میں سانس لینے کے لیے آزاد
چھوڑ دیا کرتا ہوں ۔ ہر عضو سکون و طمانیت کے ساتھ جب فطرت کی رنگینیوں سے
لطف اندوز ہوتا ہے تو آنکھیں بند کر کے گویا یوں مخاطب ہوتا ہوں کہ اے ہواؤ
ں!مجھے تم اس گوشہ تنہائی میں لے جاؤ کہ جہاں بہشت کا سا سکون ہو۔ عملی
زندگی کی دشواریوں اور ناہمواریوں سے شکست خوردہ ہو کے بیٹھے رہنا اپنے حال
زار پہ غور کرنا، متضاد رویوں کے حامل اشخاص کے ساتھ زندگی گزارنا تلخیاں
برداشت کرنا اس کے باوجود احساسات کی بھٹی میں بھسم ہو کر نکلنے سے انسان
بے حس تھوڑی ہو جاتا ہے۔ صاحب اکیسویں صدی میں جی رہے ہو 2018 ہے کیا احساس
اور فطرت کی بات کرتے ہو؟ گویا خود سے مخاطب تھا ہم کلامی کرتے وقت وہ تمام
واقعات میرے ذہن میں راسخ تھے جن کا جواب بھی میں خود سے طلب کرنا چاہ رہا
تھا۔
جس دل کو محبت اور دوستی کی سعادت نصیب ہوتی ہے یا جذب محبت کی کیفیت ہوش و
ہواس تک کو چھین لیتی ہے۔ جہاں خالص مسرت کے پھول کھلتے ہیں اور ان کی
خوشبو پوری طرح اپنے حصار میں جکڑ لیتی ہے، جہاں خوشبو کا احساس شدت سے
قلبی دنیا کو متاثر کرتا ہو دل و دماغ ہپناٹائز کر کے رکھ دیتا ہو وہاں ایک
قلم کار کے قلب کی گہرائی میں پیدا ہونے والے اچھوتے مضامین کیا غضب ڈھایا
کرتے ہیں ہائے جسے بیان کرتے وقت بھی حد درجہ دیوانگی درکار ہو حتی کہ جسے
بیان کرنے کے لیے ٹوٹے پھوٹے الفاط برے بھلے انداز میں قلب حزیں سے ادا
ہوتے ہوں۔ اور جن کی ادائیگی بھی عجب سکون مہیا کرتی ہو۔ جب یہی حروف قلم
کی زبان سے ادا ہو کے اپنی قائم مقام جگہ پہ براجمان ہوتے ہیں تو زیر لب
مسکراہٹ کامیابی کی نوید سنایا کرتی ہے۔ پھر گویا خود سے مخاطب ہو کے کہنا
پڑتا ہے کہ بڑے میاں تمہارا کام تو یہ ہے کہ ساز زندگی کے جانے بوجھے تاروں
کو ہمت اور خوش اسلوبی کے ساتھ بجاو اور جو منزل تمہارے پیش نظر ہے وہاں تک
بھٹکتے بھٹکتے پہنچ جاو۔
|