ثقافت
تحریر۔ فلک زاہد
دنیا کی ہر قوم اپنی ایک ثقافت رکھتی ہے۔ ثقافت، روایت، رسم و رواج، رہن
سہن سے قربت و محبت ہر زندہ قوم کا اثاثہ ہوا کرتا ہے.اپنی آنے والی نسلوں
کو اپنی روایات اور ثقافت منتقل نا کرنے والی اقوام ہمیشہ ترقی اور اقدار
کی جنگ میں پیچھے رہ جاتی ہے.ساری دنیا کے ممالک مختلف ذرائع ابلاغ کا
سہارا لے کر دوسرے ملکوں میں اپنا ایجنڈا آگے بڑھاتے ہیں.پاکستانی معاشرے
کی بھی اپنی اقدار، رسم و رواج اور مستند روایات ہیں.لیکن آج جب ہم اپنی
روایات کو بھول کر اپنے ہمسائے ملک کی جعلی اور پر فریب رسوم کا شکار ہو
رہے ہیں، تو اس کا الزام اہل مغرب یا کسی دوسرے کو دینے سے یہ مسلہ حل نہیں
ہوگا۔
ہمارے ہاں جب کوئی بچہ یا بچی بے راہ روی کا شکار ہوتا ہے تو مورد ِالزام
مغرب اور اسکے میڈیا کو ٹھہرایا جاتا ہے حلانکہ یہ بات روز روشن کی طرح صاف
اور عیاں ہے کہ ہمارے ملک کے سرکاری اور نجی ٹی وی چینلز پر کس قوم کا راج
ہے بقول اندرا گاندھی ''میڈیا کی جنگ ہم جیت چکے ہیں'' تو پھر کیوں کوئی
اسکے خلاف بات کرنے کو تیار نہیں کیوں ہر وقت ہمارے لوگوں کی زبان پر مغرب
کا نام سوار ہے سب جانتے ہوے بھی انجان ہیں،کیوں ہم سچ کو بدل کے جھوٹ کے
سہارے آگے بڑھنا چاہتے ہیں حقیقت سے چشم پوشی کرنے سے حقیقت بدلتی نہیں ہے.
مغرب اور اہل مغرب پر الزام دھرنے سے قبل مجھے بس ایک سوال کا جواب چاہیے
کہ ہمارے ہاں کتنی انگریزی فلمیں دیکھی جاتی ہیں.کتنا انگریزی ادب پڑھا
جاتا ہے..یا وہ کون کون سے دوسرے ذرائع ابلاغ ہیں،جن کو اپنا کر مغرب ہمارے
معاشرے میں پنجے گاڑ سکتا ہے۔
جسے دیکھو انڈیا کو اپنا دشمن بھی کہ رہا ہے اسکے باوجود پاکستانی سنیما
گھروں میں خود ہماری اور انگریزی فلموں کی بجائے ہندی فلموں کا راج ہے.بقول
سینما ملکان یہی ہماری کمائی کا ذریعہ ہے. پھر قصور کس کا ہے مغرب کا یا
ہمساے ملک کا یا پھر بطور قوم خود ہمارا جو بڑے جوش و خروش سے انکی فلمیں
دیکھنے کو اہم فریضہ خیال کرتے ہیں ،ہمارے ہاں تو انگریزی سمجھنے والوں کی
بھی شدید قلت ہے.مگر بگڑتے معاشرے کا ذمہ دار پھر بھی مغرب کو ٹھہرا کر
ڈھول پیٹے جا رہے ہیں ،مغرب کی روشن مثالی یا اس کے بہترین اصناف ادب پر آج
بات کرنے والا ہمارے ہاں غدار کہلاتا ہے ۔میری اس تحریر کا مقصد کسی کی
حمایت یا مخالفت نہیں ہے.صرف تصویر کا صحیح اور وہ پہلو سامنے لانا ہے جو
ہم سب دیکھ کر بھی انجانا کر رہے ہیں-
اگر کوئی ایک شخص بھی یہ پڑھ کر میری تائید کرتا ہے تو اس تحریر کے لکھنے
کا مقصد پورا ہوجاے گا بات بات پر مغرب اور اسکے میڈیا کو الزام دینے والے
ایک بار ٹھندے دماغ سے سوچیں وہ کہاں تک خود درست ہیں. کوء قوم کسی قوم کو
بگاڑ نہیں سکتی جب تک خود اس میں اتحاد اتفاق اور اپنی ثقافت و تہذیب سے
محبت نہ ہوبات صرف دیکھنے اور سوچنے کی ہے کہ ہمارے ملک میں کس کی جڑیں
مضبوط ہیں انڈیا کی یا مغرب کی. الزام دھر دینے سے نا حقیقت بدل جائے گی نا
ہوں انڈیا کی اس تہذیبی یلغار کو روک پائیں گئے جو دیمک کی طرح ہماری نسل
نو کو کھا رہی ہے۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ سب سے پہلے ہم مغرب کی تکرار ختم کریں، اور انڈیا
کے تہذیبی حملے کا جواب اپنے ابلاغ کو موثر اور مضبوط بنا کر دیں.کیوں آج
کا دور گولی اور بندوق کا نہیں رہا، بلکہ علم و ہنر، فلم و کتاب سے دوسری
اقوام پر غلبے کا دور ہے..آئیے بطور قوم عہد کریں کہ ہم اپنی مثبت توانائی
اپنی تہذیب و تمدن، اپنی روایت، اپنے کلچر، کو پروان چڑھانے کے لئے وقف
کریں گئے.تب ہی ہم حقیقی معنوں میں زندہ قوم بن سکیں گے
|