یہ آرٹیکل بھی میری یادداشتوں پر مشتمل ہے ۔یہ آرٹیکل اس
وقت لکھا گیا جب میری والدہ ( ہدایت بیگم ) حیات تھیں اور میں بلا ناغہ
اپنے گھر سے بنک جاتے ہوئے ماں کے گھر سے ہوکر جاتا اور شام ڈھلے واپسی کا
سفر بھی یوں ہی انجام پاتا ۔ اس دوران بے شمار واقعات کو میں نے کہانیوں کی
شکل دی جو آج بھی میری کسی نہ کسی کتاب میں شامل دکھائی دیتی ہیں ۔چونکہ ہر
دس پندرہ سال بعد جنریشن تبدیل ہوجاتی ہے اس لیے دس پندرہ سال پرانی
کہانیاں بطور خاص نئی نسل کے لیے دلچسپی کا باعث ہوتی ہیں ۔ میں اپنے چھوٹے
بھائی محمدارشد کی بیٹی مہک کے بارے میں جب یہ کہانی لکھی تھی وہ اس وقت
بہت چھوٹی اور معصوم تھی لیکن اس وقت ماشا اﷲ وہ جوان ہوچکی ہے اور اب کٹھے
گول گپے بھی نہیں کھاتی ۔ آئیے آپ بھی بچپن کی معصومیت سے لبریز سچی کہانی
سے لطف اندوز ہوں ۔
****************
یوں تو ماں کے گھر میں اور بھی بچے ہیں لیکن گول گپے والی بھائی ارشد کی
بیٹی ( مہک ) مجھے سب سے پیاری لگتی ہے اس کی کوئی ایک وجہ نہیں بلکہ کئی
وجوہات ہیں بچپن سے اس بچی نے اپنی ننھی منی شرارتوں سے میری توجہ اپنی
جانب مرکوز کررکھی ہے میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ وہ میلے یا گندے کپڑے پہن
کر کسی ایک جگہ بیٹھی ہو بلکہ جب بھی میں ماں کے گھر جاتا ہوں تو اس کو نئے
اورصاف ستھرے کپڑے پہنے ہوئے اس حالت میں تیار دیکھتا ہوں جیسے وہ ابھی
ساہیوال جانے والی ہو جہاں اس کی نانی اور ماموں اس کے منتظر ہوں -
اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ وہ اپنی مزاج کی خود آپ مالک ہے اگر وہ
کسی سے ڈرتی ہے تو صرف اپنے والد سے - اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ وہ کبھی
کبھار اس کو ڈانٹ لیتا ہو گا جن دنوں میری ماں زندہ تھی میں نے اس کو ہمیشہ
دادی کے ارد گرد ہی گھومتے ہوئے پایا تھا اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ پیسوں
کے لالچ میں دادی کے قریب آتی تھی دادی کے اردگرد اسے وہ محبت اور چاہت
لاتی تھی جو دادی ہر بچے کو اپنی آغوش میں لے کر دیا کرتی ہے -
مہک اتنی خود دار لڑکی ہے کہ سوائے ماں کے وہ پیسے کسی سے نہیں مانگتی میں
بھی کبھی نہایت خاموشی سے اسے پیسے دینے کی جستجو کرتا ہوں تو وہ لینے سے
صاف انکار کردیتی ہے بلکہ مٹھی کھول کراس میں رکھا ہوا روپیہ دکھا بھی دیتی
ہے جو شاید اس کی ماں نے دیا ہوتا ہے اس کے ہاتھوں میں ہر وقت پیسے دیکھ کر
مجھے یہ احساس ہوتا ہے کہ قدرت اس پر بہت مہربان ہے مجھے یقین ہے کہ زندگی
میں اسے کبھی پیسوں کی تنگی نہیں ہوگی وہ نہایت معصومیت سے ایسی شرارتوں
میں مصروف رہتی ہے جسے دیکھ کر اس پر غصہ آنے کی بجائے ہمیشہ پیار ہی آتا
ہے -
اس کی یہ مقبولیت صرف دادی کے گھر ہی نہیں ہے بلکہ نانی کے گھر میں بھی
شرارتوں کی وجہ سے ہر کوئی اسے پیار کرتا ہے گھر میں دوکان ہونے کی وجہ سے
ہر وقت کوئی نہ کوئی چیز کھاتی نظر آتی ہے نانی تو تمام بچوں کی طرح اس پر
جان نچھاور کرتی ہی ہے شہباز ماموں سمیت تمام گھر والے بھی اسے عزیز رکھتے
ہیں چند سال پہلے کی بات ہے کہ ایک مرتبہ جب وہ ساہیوال سے لاہور واپس آئی
تو اس کا گلہ خراب تھا میں نے مذاق سے پوچھا کہ مہک یقینا تم نے ساہیوال
میں کھٹے گول گپے کھائے ہوں گے میری اس بات کا جواب اس نے فورا ہاں میں سر
ہلا کردیا اور اس کی توتلی زبان سے یہ الفاظ نکلے کہ باچھی( عباس ) ماموں
نے مجھے کٹھے گول گپے کھلائے تھے جس سے میرا گلہ خراب ہوگیا ہے مزے کی بات
تو یہ ہے کہ وہ ہر مرتبہ یا تو کسی مامو ں کا نام لے کر کٹھے گول گپے
کھلانے کا الزام اس پر لگا دے گی یا دادی کے گھر میں ہی کسی کو اس کا ذمہ
دار ٹھہرا دے گی جب اس کی دادی زندہ تھی کئی بار ایسا بھی ہوتا تھا کہ جب
میں اسے پیار سے گلے لگا کر پوچھتا تھا کہ تمہیں کٹھے گول گپے کس نے کھلائے
تھے تو نہایت معصومیت سے اپنے دائیں ہاتھ کی انگلی اپنی دادی کی طر ف
کردیتی تھی جس پر میں اپنے بانہوں میں دبوچ کر اسے نہ صرف پیار کرتا بلکہ
کہتا تھا کہ تم نے میری ماں پر ہی کٹھے گول گپے کھلانے کا الزام لگا دیا ہے
تو اس کے ننھے اور معصوم چہر ے پر والہانہ مسکراہٹ پھیل جاتی تھی دادی بھی
پیار سے کہتی ادھر آؤ میں تمہیں بتاتی ہوں کہ کٹھے گول گپے کس نے کھلائے
تھے -
گویا اس نے جو شرارت کرنی ہوتی وہ بلا خوف خطر کر گزرتی کبھی کبھی وہ مجھ
پر بھی کٹھے گول گپے کھلانے کا الزام لگا دیتی ہے جس پر میں اسے اپنی
بانہوں میں لے کر خوب پیار کرتا ہوں اور وہ اس محبت بھرے انداز سے خوف لطف
اندوز ہوتی ہے جب میں اسے یہ کہتا ہوں کہ کٹھے گول گپے یقینا
تمہارے پاپا نے کھلائے ہوں گے پہلے کی طرح ہاں میں سر ہلانے کی بجائے فورا
انکار کردے گی اس کی وجہ یہ ہے کہ کٹھے گول گپے کھلانے کا الزام ماں سمیت
سب پر لگاسکتی ہے لیکن اپنے پاپا کو اس الزام سے ہمیشہ بری الذمہ قرار دیتی
ہے -لاہور میں رہنے والے شہزاد اور احمد دونوں ماموں بھی کبھی کبھی اس
الزام کی زد میں آجاتے ہیں جس پر وہ دونوں مسکرا مہک کی شرارتوں کو داد
دیتے ہیں انہیں اس بات کا علم ہے کہ مہک کسی بھی وقت کسی پر بھی یہ الزام
لگا سکتی ہے اس لئے انہوں نے کبھی برانہیں منایا اس کا ایک تایا اشرف اسی
گھر میں رہتا ہے اور اکثر وہ شرارتوں کی وجہ سے دیگر بچوں کے ساتھ ساتھ اسے
ڈانٹتا بھی رہتا ہے لیکن کٹھے گول گپے کھانے کے الزام سے وہ بھی نہیں بچ
پاتا جب اس کا چہرہ دوسری طرف ہوتا ہے تو وہ مجھے نہایت خاموشی سے اس کی
طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہے کہ مجھے کٹھے گول گپے اس تایا نے کھلائے تھے
گویا یہ وہ الزام ہے جو کسی بھی وقت اور کسی بھی لمحے کسی پر بھی لگایا
جاسکتا ہے -
حالانکہ ثاقب ٗ سحرش ٗ مہوش ٗ نازو اور عامر اس سے بڑے ہیں لیکن وہ اتنی
خودار اور بے باک بچی ہے کہ کسی کو بھی خاطر میں نہیں لاتی ہاں جب اسے کسی
چیز کی ضرورت ہوتی ہے تو صرف اپنی ماں کو زحمت دیتی ہے یا اپنے بھائی عامر
کے ساتھ خوب جھگڑتی نظر آتی ہے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ماں بھی اس کو شرارتی
ہونے کی وجہ سے زیادہ پیار کرتی ہے حالانکہ ٹافیاں کھانے کی وجہ سے اس کے
کچھ دانت خراب دکھائی دیتے ہیں لیکن اس کی پسندیدہ چیزوں میں ٹافیاں ہی
شامل ہیں ویسے وہ کٹھی میٹھی دال بھی بڑے مزے لے کر کھاتی ہے مجھے اس وقت
وہ اور بھی پیاری لگتی ہے جب وہ پینٹ اور کرتہ پہن کر سر پر دوپٹہ لے کر
بغل میں سپارہ لئے پڑھنے جاتی ہے میں پیار سے اسے کہتا ہوں کہ تمہیں تو سب
کچھ آتا ہے تم پڑھنے کیوں جاتی ہو تو وہ ہاں میں سر ہلا دیتی ہے جیسے واقعی
وہ عالم فاضل ہے -
کئی بار جب میں ان کے گھر شام سے پہلے جاتا ہوں تو صحن میں ہر طرف خاموشی
دیکھ کر میں اس کی ماں سے پوچھتا ہوں آج گول کپے والی کدھر ہے اس کی ماں
بتاتی ہے کہ وہ سو رہی ہے اسی لمحے جب وہ نیند سے بیدار ہوتی ہے تو عام
بچوں کی طرح رونے یا موڈ خراب کرنے کی بجائے مسکراہٹ ہی اس کے چہر ے پر
بکھری نظر آتی ہے - مجھے یقین ہے کہ جیسے میں اسے سب سے زیادہ پیار کرتا
ہوں وہ بھی مجھے بہت چاہتی ہے کبھی بار بن بلائے ہی قریب آ کر میری آغوش
میں سمٹ جاتی ہے پھر میں اسے اپنی بانہوں میں لے کر خوب پیار کرتا ہوں
داڑھی اور مونچھیں بچوں کے نرم نرم گالوں پر چبھنے کی وجہ سے کئی بچے پیار
سے بھاگتے ہیں لیکن یہ لڑکی سب کچھ اس لئے برداشت کرتی ہے کہ میرا سچا پیار
اسے قلبی راحت فراہم کرتا ہے جہا ں میں دوسرے بچوں کے لئے ہمیشہ دعاگو رہتا
ہوں وہاں میری دعاؤں کا مرکز کٹھے گول گپے والی مہک بھی ہوتی ہے حقیقت تو
یہ ہے کہ جس آنگن میں میری مرحوم ماں کی خوشبو رچی بسی ہے ہر ایک چیز سے
ماں کی تصویر او ر یاد ابھرتی دکھائی دیتی ہے اس گھر کی ہر چیز مجھے اپنی
جان سے بھی پیار ی لگتی ہے ان پیار بھر ے لوگوں میں مہک سب سے اول نمبر پر
ہے -
اب وہ سکول بھی جانے لگی ہے لیکن جس انداز سے وہ سکول سے واپس آتی ہے میں
اسے دیکھ کر اپنی ماں کے بچپن میں اتر جاتا ہوں لاشعور میں مجھے کوئی طاقت
یہ بتاتی ہے کہ جس طرح میری ماں بھی بچپن میں نہایت معصوم اور پڑھائی میں
نہایت تیز ہونے کے ساتھ ساتھ ہر دلعزیز تھی اسی طرح تیسری نسل کی یہ بچی
بھی اپنی دادی کی چاہت بھری باتیں اور عادتیں اپنے دامن میں سموئے اپنے
بچپن سے لڑکپن کی طرف گامزن ہے مجھے یقین ہے کہ زندگی کی کسی بھی نہج پر یہ
بچی ناکام اور نامراد نہیں ٹھہرے گی بلکہ وہ اپنے حق کے لئے پوری دنیا سے
ٹھکرا جانے کا عزم رکھتی ہے اس وقت جبکہ ماں کے صحن میں اس کی معصوم اور
ننھی شرارتیں جگہ جگہ بکھری نظر آتی ہیں یو ں بھی کہا جاسکتا ہے کہ اس گھر
کی ساری رونقیں اس کی مٹھی میں بند ہیں جب وہ مٹھی کھولتی
ہے تو پورا گھر مہک اٹھتا ہے - |