جمہوریت کے عام معنی عوام کی حکومت، عوام کے ذریعے اور
عوام کی خاطر کے ہیں، اس کا مطلب کچھ اس طرح ہے عوامی حکومت منتخب کردہ
برائے عوام برائےتحفظ و فلاحِ عوام۔ اس کے حق میں کچھ مفکرین اس کو عوام کا
نجات دہندہ سمجھتے ہیں تو وہیں ناقدین اسے بندے گننے کا نام دیتے ہیں بندے
تولنے کا نہیں یعنی صرف اعداد بغیر دماغ جنکی کوئی سوچ نہ ہو۔
نظام کوئی بھی ہو ہمیشہ انسانوں کا مرہونِ منت رہا ہے، انسان اپنی سوچ سے
اس کو اچھا یا برا بنا سکتا ہے۔ کسی بھی نظام کا دارومدار اس کی بنیاد پر
ہوتا ہے، اگر کسی بھی عمارت کی بنیاد کمزور رہ جائے تو پھر خواہ کتنا ہی
مضبوط میٹریل لگا لیں زلزلے کا ہلکا سا جھٹکا اسے زمین بوس کرنے کے لئے
کافی ہوتا ہے۔
اب ہم بات کرتے ہیں جمہوریت کی تو ہر نظام کی طرح جمہوریت کی عمارت بھی کچھ
عقائد ،نظریات اور قواعد و ضوابط کی مرہونِ منت ہوتی ہے۔ بانیِ پاکستان
محترم محمد علی جناح نے اس پاک وطن کی بنیاد ایمانِ ، اتحاد اور تنظیم جیسے
اصولوں پر رکھی تھی۔ اگر صرف ان بنیادی اصولوں پر عمل کر لیا جاتا تو شاید
ہم ایک مضبوط جمہوری نظام کے قیام کو یقینی بنا سکتے تھے، مگر افسوس ہم نے
تو ان اصولوں کو ہوا میں اڑا دیا۔ جمہوریت معاشرے کے تمام اہم کرداروں کو
ساتھ لے کر چلنے کا نام ہے، کسی ایک ستون کے بغیر جمہوریت کی عمارت زیادہ
دیر نہیں ٹک سکتی ۔
ہماری بدقسمتی دیکھئیے جب قائد یہ اصول وضع کرنے کے بعد ان کا اعلان فرما
رہے تھے، تو چند معززین اتحاد بین المذاہب پر نقب لگانے کے لئے بیتاب و بے
قرار بیٹھے تھے انھی معززین نے قائد کے تاریخی خطاب میں سے یہ الفاظ حذف
کروائے جس میں ببانگ دہل اعلان کیا گیا تھا کہ مملکتِ خداداد میں اقلیتوں
کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہوگی اور ان کا تحفظ یقینی بنانا حکومتِ وقت کی
ذمہ داری۔ قصہ مختصر قیام پاکستان سے لے کر آج تک ہم نے مختصر عرصے کی
کامیابی کی خاطر ایک لوہلی لنگڑی جمہوریت کی آبیاری کی ہے جس کا نتیجہ ہم
بھگتتے آئے ہیں اور شاید مزید بھگتیں۔
آج پاکستانی معاشرہ کرپشن، بد دیانتی، اخلاقی پستی، عدم۔ برداشت، فرقہ
واریت، شدت پسندی کی انتہائی سطح کو چھو رہا ہے۔ کسی کی جان ،مال ،عزت
محفوظ نہیں ،مذہبی شدت پسندی اور مذہب کا بیوپار اپنی انتہا پر ہے، ان نازک
حالات میں یہ امید جستجوء لا حاصل کے سوا شاید کچھ بھی نہیں کہ جمہوری نظام
اپنا کردار ادا کرتے ہوئے عوام الناس کو ان عفریتوں سے چھٹکارا دلائے گا۔
بس نام کا مسلماں ہوں
شاید اسی لئے پریشاں ہوں
ایک مرتبہ پھر یاد دلادوں جمہوری نظام کا مطلب عوام کی منتخب کردہ حکومت کا
اپنی عوام کی فلاح و بہبود کو یقینی بنانا اور ان کو زندہ رہنے کے لئے
بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ملک کے مفادات کا تحفظ اور قانون کی
بالا دستی قائم کرنا ہوتا ہے اس کے لئے حکومت ہر وسائل استعمال کر سکتی ہے۔
شومئی قسمت یہ ہے کہ جس ملک میں عوام کا مینڈیٹ دہائیوں سے دھڑلے سے چوری
کیا جائے، سیاستدان پیسہ کمانے کے لئے سیاست کرے، فرقہ واریت کو ملکی
سلامتی کے لئے ایک ہتھیار کے طور پر پھیلایا جائے، کرپشن اک رواج بن جائے،
مذہب مختلف ملائوں کی دکانوں پر بکنے لگے ، ملا مسجد چھوڑ لینڈ کروزر کی
نرم سیٹوں پر بیٹھنے کو ترجیح دے، ہر پہلا شخص دوسرے کو کافر ثابت کرنے کی
سند لئے گھومے، قانون کے محافظ خود اس میں سرنگ کھودنے لگیں، سپاہی ملکی
سرحدوں کا تحفظ چھوڑ کر تاجر بننے کو ترجیح دیں، مذہب کے نام پر لوگوں کو
قتل کرنا ثوابِ دارین تصور کیا جائے، حوروں کی تلاش میں مساجد میں بے گناہ
نمازی شہید کیے جائیں، ہر واقعہ کے بعد بجائے اس سے سبق سیکھنے اور اس کی
روک تھام کے ایک تعزیتی بیان شائع کروانا اپنی شان تصور کیا جائے وہاں
جمہوریت کی بات کرنا محض مذاق کے سوا کچھ نہیں۔
بقول غالب
کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس ذودِ پشیماں کا پشیماں ہونا
آج کل اک اور فیشن زور پکڑ چکا ہے چند لوگ اکٹھے کرو، عوام الناس کا جینا
حرام کرو، حکومتی اداروں کی تذلیل کرو اور اسکی رٹ کو کھلے عام چیلنج کر کے
اپنی شرائط منوالو۔ میرا خیال میں تو اب اس بارے میں اک قانون بن جانا
چاہئے کہ کتنے بندے اکٹھے کرکے اپنی بات منوائی جاسکتی ہے، اس سے عوام
الناس تو عذاب سے بچیں گے اپنے بندے رجسٹر کروائو اور من مرضی کرو ملک اپنے
باپ کا تو ہے۔ خدارا دینِ اسلام اور محبت رسالت اور اہلِ بیت جیسے پاکیزہ
نام استعمال کرکے اپنی اس گھسی پٹی مذہبی فلم کو چلانے کی کوشش مت کریں ہم
پچھلی تین دہائیوں سے اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں اور مذید متحمل نہیں ہو
سکتے۔ کوئی شک نہیں اس سے بہتر کاروبار شاید آپ کو اور نہ ملے، شاید آپ کو
لینڈ کروزر سے اتر کر دوبارہ سائیکل پر بیٹھنا پڑے، آپ کو شاید مرغن غذائوں
کے بجائے سادہ کھانے پر قناعت کرنا پڑے لیکن خدارا اسلام کے بنیادی اصولوں
کی دھجیاں مت اڑائیں، ہمارا دین امن اور سلامتی کا دین ہے اس میں کوئی جبر
نہیں۔ جنازوں پر حملے کسی صورت بھی جائز نہیں، لوگوں کی املاک کا نقصان کسی
صورت قابلِ معافی نہیں، مذہب کسی کی تزلیل کا لائسنس نہیں دیتا، آپ اس
بنیاد پر بدمعاشی تو کر سکتے ہیں کہ آپ کے ساتھ چند لوگ ہیں اسلام کا تحفظ
ہر گز نہیں اور اس کا خمیازہ آپ کی آنے والی نسلیں ایسے ہی ادا کریں گی
جیسے آج آپ اور میں شاید اسی لئے
علامہ اقبال نے جمہوریت کو گدھوں کی گنتی سے تعبیر کیا تھا بجائے صحت مند
اور مفید سوچ کے استعمال کے، بالکل ایسے ہی جیسے دو سو گدھے مل کر بھی ایک
انسان کی سوچ نہیں پیدا کر سکتے یہ جستجوء لاحاصل کے سوا کچھ بھی نہیں۔
اللہ اس ملک کا حامی و ناصر ہو
پاکستان پائندہ باد! |