حقوق نسواں میں کوتاہی و غفلت سے شریعت اسلامیہ میں مداخلت کے در کھلتے ہیں

اسلام عظیم دین ہے۔ یہ ہر شعبے کو محیط ہے۔ اس کے قوانین سے کوئی لمحۂ حیات خالی نہیں۔ حیاتِ انسانی کے جملہ گوشے بلکہ حیات مابعدالموت سے متعلق بھی اسلامی قوانین موجود ہیں۔ یہ اسلام کی سب سے بڑی سچائی ہے۔ یہ آفاقیت ہے ہمارے مذہب حق کی۔ یہ دلیل ہے صدق و سچائی کی۔ ہمیں ناز ہونا چاہیے کہ ہم اسلام جیسے سچے دین کے حامل ہیں۔ جس نے اپنے اصول و قوانین میں کسی طبقے کو فراموش نہیں کیا۔ طبقۂ نسواں جو حیاتِ انسانی کا مضبوط ستون ہے؛کے حقوق سے متعلق جتنی تاکیدات کتاب و سنت میں آئی ہیں؛ ان کا مطالعہ ہماری اصلاح کو کافی ہے۔

آج عموماً طبقۂ نسواں سے متعلق فرقہ پرست قوتیں،لادینی کورٹیں، حکومتی ادارے اپنی زبان کھول رہے ہیں۔ اسلامی قوانین کے مقابل لادینی قانون تھوپنے کی تیاری ہے۔ اسلام نے عورتوں کو جو حقوق دیے ہیں؛ انھیں موردِ طعن بنایا جا رہا ہے۔ خواتین سے متعلق مسائل تنقیدات کے شکار ہیں۔ جس سے مسلمان بے چین ہیں۔ بے قرار ہیں۔ تذبذب کے شکار ہیں؛ کہ اسلامی شریعت زد پر ہے۔ حقیقت واقعہ کیا ہے؟ اس پر غور کریں تو مخالفت کے اسباب و علل سمجھ میں آئیں گے۔ اِس رُخ سے بھی غور کرنا چاہیے کہ خواتین اسلام کے معاملات ہی کیوں شہ سرخیوں میں لائے جاتے ہیں؟ اس ضمن میں چند نکات درج کیے جاتے ہیں جن پر توجہ سے ایسے معاملات کا نہ صرف یہ کہ تصفیہ ہوگا بلکہ فرقہ پرستانہ سوچ کی حوصلہ شکنی بھی ہوگی۔
[۱] پہلی وجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں خصوصاً حقوقِ نسواں کے سلسلے میں کوتاہی کے معاملات واقع ہوتے ہیں۔ اسلام نے انھیں جو حقوق دیے اس کی مثال نہیں پیش کی جا سکتی۔ خواتین کی زندگیاں اسلامی حقوق کی ادائیگی سے محفوظ بھی ہیں اور عزت و وقار سے مالا مال بھی۔اِس لیے اپنی ذمہ داری یہ ہونی چاہیے کہ خواتین کے معاشرتی، عائلی، سماجی حقوق شریعت کی روشنی میں پورے کیے جائیں۔ ان کے تقاضے ادا کیے جائیں۔
[۲] ترکہ میں کئی ایسے معاملات ہوتے ہیں کہ بچیوں/عورتوں کو کم زور سمجھ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جن کے اختیار میں والدین کے انتقال کے بعد جائیداد ہوتی ہے، اپنے قبضہ و قوت کا فائدہ اٹھا کر ان کے ترکے میں خیانت کر لیتے ہیں۔ اس وجہ سے بھی بسا اوقات خواتین کورٹ کا رخ کرتی ہیں۔ جس سے لادینی کورٹیں مخل ہوتی ہیں۔ پھر جو اسلام مخالف میڈیا ہے وہ اس کا فائدہ اٹھا کر یہ چیختا ہے کہ اسلام مساوات کا دشمن ہے۔ حالاں کہ اسلامی احکام پرعمل نہ ہونے سے ہی یہ نوبت آتی ہے۔ اگر حقوقِ نسواں ترکے کے رخ سے ادا کر دیے جاتے تو کورٹ کا مسئلہ ہی نہیں واقع ہوگا۔
[۳] عموماً طلاق وغیرہ کے معاملات میں بے احتیاطی کی جاتی ہے، عجلت میں طلاق دے دی جاتی ہے۔ شریعت سے عائد کردہ معاملات نظر انداز کر دیے جاتے ہیں۔ نتیجے میں اپنے حق، اگر اولاد ہے تو اس کی پرورش جیسے مسائل کو لے کر خواتین اضطراب کا شکار ہوتی ہیں۔ پھر آخری مرحلہ مقدمے کا آتا ہے جس میں وقت، دولت، عزت سبھی کچھ داؤ پر لگتے ہیں اور ایسے ہی معاملات میں فرقہ پرستوں کو مداخلت کے مواقع میسر آتے ہیں۔ اس لیے پنچ افراد کو چاہیے کہ اپنی شریعت اپنے دین کے فیصلوں کے مطابق ایسے نازک حالات میں عمل کریں، کرائیں تاکہ معاملات شرعی طور پر حل ہو سکیں۔ یاد رکھیں۔ حقوق کچلے جائیں گے تو اس کے اثرات بھی ظاہر ہوں گے۔طلاق جیسے مسئلے میں شرعی طریقوں کو نظر انداز کرنے سے ہی تین طلاق سے متعلق حکومتی مداخلت ہوئی اور جس طرح کے ریمارک دیے گئے وہ جگ ظاہر ہیں۔
[۴] شوہر و بیوی کے درمیان نزع ہو جانے پر حسنِ سلوک کے ذریعے تصفیہ کرایا جائے۔ اگر بچی ظلم کا شکار ہے۔ سسرالی افراد زیادتی کرتے ہیں تو اس کا حل نکالنا چاہیے۔ عموماً ایسی صورت میں بھی بچیاں مقدمات کا سہارا لیتی ہیں۔ ایسے ہی چند معاملات کو میڈیا نے ماضی میں گرمایا تھا۔ اور اسلام کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔اس کا حل بھی شریعت کی روشنی میں ملوث افراد کی اصلاح ہے۔یوں ہی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بچی غیر مناسب رجحانات کا شکار ہو کر گھر کے لیے اجیرن بن جاتی ہے توایسے حالات میں بھی تنبیہ سے کام لیا جائے۔اور اس کی غلطیوں کی اصلاح مناسب طریقے سے کی جائے۔
[۵] مذہبی طبقہ سے جڑے بعض افراد میں بھی یہ دیکھا گیا ہے کہ بچیوں کے مال و اسباب ہڑپ کر جاتے ہیں۔ ان کے حصے ترکے وقت پر نہیں دیتے ۔ یا دیتے ہیں توکمی کر دیتے ہیں۔ کم دیتے ہیں۔ ایسے طمع و لالچ کے بطن سے بھی اختلافات ابھرتے ہیں۔
[۶] باہمی تصفیہ کی یہ صورت نافع ہو گی کہ جب اختلاف واقع ہو تو شرعی طریقے سے فریقین کو بٹھا کر سمجھایا جائے۔ طلاق کی نوبت نہ آنے پائے اس کی کوشش کی جائے۔ یا بہت ضروری ہو تو تنبیہ یا محض دھمکی و ڈانٹ ڈپٹ سے کام لیا جائے۔ حتی المقدور طلاق سے بچا جائے۔ بہت ضروری ہوا تو ایک ہی طلاق سے کام چلایا جائے۔ جوش و غیض و غضب میں تین بول جاتے ہیں اور اس طرح سے اﷲ تعالیٰ کی ناراضی مول لیتے ہیں اور مسائل بڑھ جاتے ہیں۔ اس لیے باہمی تصفیہ کی راہیں استوار کی جانی چاہیے۔
[۷] ایک ضروری ذمہ داری یہ ہے کہ علم دین حاصل کیا جائے۔ بچوں بچیوں کو دین سکھایا پڑھایا جائے۔ طلاق کے منفی اثرات بتائے جائیں۔ حقوقِ نسواں سکھائے جائیں، شوہر کے حق بتائے جائیں تا کہ عملی زندگی میں مسائل کا حل علم کی روشنی میں بہ آسانی ہو سکے۔ جن طبقوں کے معاملات کورٹوں میں پہنچے عموماً ان میں دین کی معلومات میں کمی یا دین سے دوری پائی گئی۔ اس لیے جب بنیادی طور پر علم دین سے رشتہ استوار رہے گا تو غیر اسلامی فیصلوں کے امکانات کم ہی پائے جائیں گے۔

بہر کیف!والدین کے لیے بھی لازم ہے کہ بچیوں کے حقوق اپنی زندگی ہی میں ادا کرنے کی کوشش کریں تاکہ بعد از رحلت ترکے وغیرہ میں ناانصافی کی فضا قائم نہ ہوسکے۔ ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ طبقۂ نسواں سے متعلق اپنی ذمہ داریوں کا احساس و ادراک کریں تاکہ اغیار کے لیے منفی کمینٹ کے مواقع مسدود ہوں اور اسلامی احکام کے نکھرے ستھرے فیصلوں کا عملاً نفاذ ہو۔ خلافِ شرع راہوں پر قدغن لگے۔ فرقہ پرست عناصر ناکام ہوں۔ باہمی تصفیہ کی صورتیں آسان بنائی جائیں۔فتاویٰ رضویہ میں بھی اعلیٰ حضرت نے غیر شرعی کورٹوں کے مقابل باہمی شرعی تصفیہ کی فکر اجاگر کی ہے جس پر آج بھی عمل قوم کے لیے مفید و نتیجہ خیز ثابت ہوگا۔

Ghulam Mustafa Rizvi
About the Author: Ghulam Mustafa Rizvi Read More Articles by Ghulam Mustafa Rizvi: 277 Articles with 255201 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.