ہماری روزمرہ زندگی میں نفسیات کا عمل دخل زیادہ پایا
جاتا ہے جس کی وجہ ہر فرد سے منسلک الگ الگ نفسیات ہیں۔ اس میں احساسات و
جذبات ، خیالات و نظریات ، پسند و نا پسند ، محبت و نفرت ، غمی و خوشی اور
اچھائی و بُرائی سب شامل ہیں۔ یہاں میں افراد کی اُن نفسیات کی بات کرنا
چاہتا ہوں جو ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکی ہیں۔ اگر کوئی اس میں اپنے
لئے اصلاح کا پہلو ڈھونڈتا ہے تو وہ ضرور اپنی نفسیات کوتبدیل کرے۔ یہاں
میں ایک وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ افراد سے منسلک تمام نفسیات بُری نہیں
ہوتیں ، یعنی منفی اور مثبت دونوں طرح کی نفسیات پائی جاسکتی ہیں۔ ان کو
سمجھنے کے لئے روزمرہ زندگی سے چند مثالوں کا سہارا لیتے ہیں۔ ہمارے استاد
محترم کے پاس علاج کی غرض سے مریض آتے تھے۔ وہ چند قرآنی آیات پڑھ کر مریض
پر دَم کرتے اور کچھ تعویز نیلے پیلے کپڑے میں باندھنے کا کہتے۔ ہم استاد
محترم سے پوچھتے کہ کیا اِن کا اثر ہوتا ہے۔ تو اس کا جواب ہوتا کہ تم کسی
کے لئے تعریفی و توصیفی کلمات ادا کرو تو دیکھو وہ فرط خوشی سے پھولے نہیں
سمائے گا ، کسی لئے خوشامدی الفاظ استعمال کرو تو دیکھو کہ وہ تمہارا کام
کیسے نہیں کرتا اور اس کے برعکس کسی کے لئے نازیبا الفاظ کا استعمال کرو تو
دیکھو اس کو کتنا ناگوارگزرتے ہیں۔ جب انسان کے الفاظ میں اتنی طاقت پائی
جاتی ہے جس سے فرد میں خوشی و غمی کے جذبات جنم لیتے ہیں تو خود سوچیں کہ
اﷲ تعالیٰ کے کلام میں کتنی تاثیر ہوگی۔ اسی کلام اﷲ کی تاثیر ہی تھی کہ جب
حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جیسے سخت گیر شخص نے بہن اور بہنوئی سے
سورہ طٰہٰ کی آیات سنیں تو دل موم ہوکر پگھل گیا۔ استاد محترم مریض کو دَم
کرنے کے بعد پانی کی بوتل دَم کر کے دیتے اور کہتے کہ اس میں پانچ الائچی
یا کچھ سونف یا سات کالی مرچ کے دانے ڈال دینا۔ ہمارا استاد سے اگلا سوال
یہ ہوتا کہ ان اجزاء کا مریض کی بیماری کے علاج سے کیا تعلق بنتا ہے۔ استاد
مسکرا کر بتاتے کہ یہاں نفسیات کی بات ہے۔ صرف دَم پانی سے مریض کا یقین
نہیں بنتا ، اس لئے اس کی نفسیات کا سہارا لے کر اُس میں الائچی ، سونف یا
کالی مرچ ڈالنے کو کہتا ہو ں ۔ یوں اس کا یقین پکا ہو جاتا ہے۔
گزشتہ روز مچھر اور کیڑے مارنے والی اسپرے خریدنے مارکیٹ گیا۔ دکان دار سے
خاصی جان پہچان ہے لہٰذا اس سے مؤثر قسم کی اسپرے مانگی۔ اُس نے ایک اسپرے
تھماتے ہو کہا۔ ’’ یہ لے لیں ، مؤثر ہے اور اس کی بُو بھی نہیں ہے ‘‘۔ اس
نے ایک دوسری اسپرے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے مزید کہا۔ ’’ یہ مؤثر ہے لیکن
اس کی بُو ہے۔ اکثر لوگوں کی نفسیات ( اسپرے کی تاثیر ) بُو کے بغیر کام
نہیں کرتی ہیں لہٰذا وہ یہ والی لیتے ہیں ‘‘۔ میں نے بغیر بُو والی اسپرے
خریدتے ہوئے کہا کہ مجھے لوگوں کی نفسیات سے کوئی غرض نہیں، مجھے آپ کی
نفسیات پر یقین ہے۔ میرا ایک دوست لوگوں کی نفسیات کے حوالے سے کہتا ہے کہ
جس ڈاکٹر کی فیس زیادہ ہوتی ہے مریض اس کے پاس زیادہ جاتے ہیں اور اسی طرح
جو ڈاکٹر لمبے چوڑے دوائیوں کے نسخے لکھ کر دے وہاں بھی مریض کھچ کھچ کر
چلے آتے ہیں۔ بس ہماری نفسیات ہی کچھ ایسی بنی ہیں کہ ہم کم فیس اور تھوڑی
دوائیاں دینے والے ڈاکٹروں کے پاس نہیں جاتے۔ اس کے علاوہ اکثر ڈاکٹر حضرات
مختلف حربوں ، یعنی ٹیسٹوں کے ذریعے اپنے کلینک میں مریضوں کا رَش لگائے
رکھتے ہیں اور لوگوں کی نفسیات سے کھیل کر خوب پیسا کماتے ہیں۔ ایلو پیتھک
سے ہومیو پیتھک کی طرف آئیں تو یہاں نفسیات کا معاملہ واضح نظر آتا ہے۔
ہماری نفسیات ہومیو کی چھوٹی اور میٹھی گولیوں اور دوائیوں کے چند قطروں کے
استعمال سے بخار کا اُترجانا ، پیٹ درد ٹھیک ہوجانا ، بلڈ پریشر کا نارمل
ہوجانا وغیرہ کو تسلیم ہی نہیں کرتی۔
ذرا ایک اور پہلو پر نظر ڈالتے ہیں۔ بچہ ٹھیک ٹھاک صبح سکول چلا جاتا ہے۔
گھنٹہ، دو گھنٹے بعد سکول سے فون آتا ہے۔ آپ تھوڑے سے پریشان ہوجاتے ہیں ۔دوسری
جانب سے پرنسپل کہتے ہیں کہ آج آپ کا بچہ کچھ ڈھیلا ڈھیلا دکھائی دے رہا ہے۔
آپ فرماتے ہیں کہ ایسی کوئی بات نہیں ، صبح تو ٹھیک ٹھاک اور ہشاش بشاش
سکول گیا تھا۔ دوسری جانب سے مزید کہا جاتا ہے کہ بچہ ویسے ذہین اور چست ہے
لیکن آج مجھے یوں کچھ ڈھیلا سا لگا۔ کسی ڈاکٹر کو تسلی کے دکھا دیں ، کوئی
حرج نہیں ہوگا۔ درحقیقت سکول ایڈمن بچے کے حوالے سے آپ کی نفسیات سے کھیل
رہے ہوتے ہیں۔ آپ کے ذہن میں یہ بات بیٹھ جاتی کہ کتنا اچھا سکول ہے کہ بچے
کی روزانہ حرکات و سکنات کو نوٹ کرتے ہیں۔
اُونچی دُکان ، پھیکا پکوان کا محاورہ بارہا سنتے اور پڑھتے رہتے ہیں لیکن
نفسیات سے مجبور ہوکر ہم خریداری کے لئے بڑی بڑی مارکیٹوں اور جنرل سٹوروں
کا رُخ کرتے ہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہاں کوئی شئے سستی نہیں ملے گی۔
یہی حال ہمارے تعلیمی نظام کا بھی ہے۔ ہم اپنی نفسیات کی آڑ میں بچوں کو
مہنگے سکولوں میں داخل کرواتے ہیں۔ وہاں کے تعلیمی ماحول ، اساتذہ کی
قابلیت اور پڑھایا جانے والے نصاب سے ہم کوئی سروکار نہیں ہوتا ۔ بس اپنی
نفسیات کو اولین ترجیح دیتے ہیں۔ نفسیات کو ہم ایسے بیان کرسکتے ہیں کہ اگر
کسی بچے کو غصے میں ہلکا تھپڑ لگایا جائے تو وہ رو پڑتا ہے لیکن مذاق میں
مارے ہوئے زور دار تھپڑ سے ہنستا ہے ، یعنی نفسیاتی درد جسمانی درد سے
زیادہ شدید ہوتا ہے جیسا کہ زبان کا لگا ہوا زخم ، کلہاڑی کے زخم سے زیادہ
گہرا ہو تا ہے۔ پس اگر ہم کامیاب زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں مثبت
نفسیات اپنانی ہوں گی۔ |