امام بارگاہ ڈونگی میں چہلم سید الشہداء

ڈونگی تحصیل کھوئیرٹہ سے سات کلو میٹر کوٹلی کی طرف اور کوٹلی سے اکیس کلو میٹر دور کھوئیرٹہ کی طرف واقع ہے۔ ڈونگی کی وجہ تسمیہ اسکے پڑوسی بالائی گاؤں ٹھل کجھورلہ۔ سگیام اور دہری کی پہاڑی چوٹیوں سے ہزاروں فٹ نیچے گہرائی میں واقع آبادی بتائی جاتی ہے۔ لگتا ہے کہ کسی دور میں یہ علاقہ پانی میں ڈوبا ہوا تھا لیکن اسکا پانی ارد گرد ندی نالوں اور بانوں میں رخ کرنے کی وجہ سے یہ علاقہ خشکی میں بدل گیا جہاں آہستہ آہستہ لوگ آباد ہونا شروع ہو گے۔ اب یہ گھنے اور خوبصورت قدرتی جنگلوں اور پہاڑوں کے درمیان پر امن باشندوں کا ایک گاؤں ہے جس میں مختلف برادریوں اور قبیلوں کے لوگ صدیوں سے پیار و محبت سے رہ رہے ہیں جسکی وجہ سے یہ امن و بھائی چارگی کا نمونہ سمجھا جاتا ہے جس میں سادات خاندان کا اہم کردار ہے۔ ڈونگی سے ایک سڑک کوٹلی اور ایک میرپور کی طرف نکلتی ہے پھر کوٹلی سے راولپنڈی اور پونچھ کے لیے سڑکیں نکلتی ہیں جبکہ ڈونگی سے میرپور جانے والی روڈ ڈونگی سے میرپور کی طرف تین کلو میٹر آگے جا کر گلپور اور تحصیل چڑہوئی کے لیے اپنے راستے بدل لیتی ہیں۔ ڈونگی اور کھوئیرٹہ کے درمیان ایک گرل سٹیشن اور ایک فوجی چھاونی ہے جنکے ارد گرد قدرتی آبشاریں ندیاں نالے اور پہاڑی سلسلے ہیں ۔ ڈونگی میں ایک سرکاری ہائی سکول اور چند ایک نجی تعلیمی ادارے بھی ہیں جبکہ بنک اور کھیلوں کا چھوٹا سامیدان بھی ہے۔ یہاں مختلف مسالک کے لوگ آباد ہیں جن کے درمیان مثالی اتحاد و اتفاق ہے جسکی ایک تازہ مثال اس وقت دیکھنے میں آئی جب چار نومبر کو ڈونگی کے سادات خاندان سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر سید افتخار حسین شاہ نے حال ہی میں تعمیرہونے والی امام بارگاہ فاطمۃ الزھرہ میں مجلس اعزا بسلسلہ سید الشہداء کا انعقاد کیا جس میں دور دراز سے بچوں بزرگوں اور مرد و خواتین نے شرکت کی۔ نبی شاہ اور ماسٹر محمد فاضل مرحوم سادات خاندان کی معروف و محترم شخصیات تھیں جنکی جگہ اب اس خاندان کی نمائندگی ڈاکٹر محمد افتخار شاہ اور برادران کر رہے ہیں۔ مہمان خاص مانسرہ سے تعلق رکھنے والے اہلسنت کے مولانا حبیب الملک اور راولپنڈی سے پروفیسرشاکر رضا نقوی تھے۔ نظامت کے فرائض سن سنتالیس تک متحد رہنے والی ریاست جموں کشمیر کے خوبصورت خطہ بلتستان سے تعلق رکھنے والے امام مسجد مولانا محمد یعقوب بلتی نے ادا کیے جو وقفہ وقفہ سے اردو و فارسی کے اشعار سے سامعین کے دلوں کو گرماتے رہے۔ وہ گزشتہ بیس سالوں سے یہاں آزاد کشمیر میں دینی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔

مولانا حبیب الملک مانسہرہ سے طویل سفر طے کر کے یہاں پہنچے اور وہ اپنے اس طویل سفر کا مقصد پورا کر کے گے ۔ انکی تقریر سے یہاں کے مختلف مسالک کے لوگوں کے درمیان اتحاد و اتفاق کی فضا مزید بہتر ہوئی، انہوں نے فرمایا ہے کہ شعیہ سنی اور وہابی نہیں بلکہ مومن ہونا ضروری ہے۔ ذات مصطفی ذات خدا کی مظہر ہے۔ نبی کریم کی زبان رب کی زبان ہے نبی کا فرمان حتمی ہے اس لیے اس پر شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ایمان کا ٹیسٹر عبادت اور جاہ و جلال نہیں بلکہ اتباح رسول ۔خدمت خلق اور آل رسول سے محبت و عقیدت ہے۔ ہم دوسرے نبیوں کو اس لیے مانتے ہیں کہ محمد صلی اﷲ علیہ و سلم نے ہمیں انکو ماننے کی ہدیت کی ہے اور حسن و حسین سے اس لیے محبت کرتے ہیں کہ ہمارے نبی کو ان سے محبت تھی۔ انہوں نے کہا کہ نبی اور آل نبی سے محبت کرنے والوں کے پاس فرشتوں سے پہلے مغفرت آئے گی۔ پروفیسر شاکر رضا نقوی نے کہا کہ قرآن کو پڑھنا کافی نہیں بلکہ سمجھنا ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر انسان کے اندر حقیقی تبدیلی نہیں آتی۔ انہوں نے کہا سب سے اچھی مجلس وہ ہے جس میں زکر خدا اور پاکوں کو زکر ہو۔ پاکوں کے زکر کی فضیلت حج اور عمرے سے بھی زیادہ ہے۔ اس پاک محفل میں راقم کو بھی اظہار خیال کی دعوت دی گئی۔ میں نے سوچا کہ مسلمانوں کی محفل میں مسلمانوں کے حوالے سے تو زکر خیر ہوتا ہی رہتا ہے کیوں نہ غیر مسلم سکالرز کے حوالے سے زکر حسین ہو جائے۔ تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ تاریخی سچائیوں کی قدر و قیمت رکھنے والے غیر مسلم سکالرز کی کثیر تعداد نواسہ رسول کی قربانی کی معترف ہے البتہ یہاں صرف چند ایک غیر مسلم سکالرز کے ریمارکس پیش کیے جا رہے ہیں۔ کیمبرج یونیورسٹی کے پروفیسر ایڈورڈ براؤن امام حسین کی قربانی کو سلام پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ چودہ سو سال سے واقعہ کربلا باطل کے خلاف حق ۔برائی کے خلاف اچھائی اور غلط کے خلاف صحیح کی نمائندگی کرتا آ رہا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں کہ امام حسین اسلام کو بچانے کے لیے ظالم یزید کے خلاف اس وقت ڈٹ گے جب انہیں نتائج کا پوری طرح علم تھا ۔ امام حسین آنے والی دنیا کے لیے یہ پیغام چھوڑ گے ہیں کہ ایمان تلوار سے زیادہ طاقتور ہے۔ واقعہ کربلا سے پہلے دنیا ہمیشہ جس کی لاٹھی اسکی بینس پر یقین رکھتی تھی لیکن امام حسین کی قربانی نے ثابت کیا کہ رائٹ سے مائٹ یعنی حق سچ اور ایمان اصل طاقت ہیں ۔ بابا آزادی ہند مہاتما گاندی لکھتے ہیں کہ انہوں نے امام حسین کی قربانی سے سیکھا کہ کہ کس طرح ظالم سے حق آزادی لیا جاتا ہے۔ اسی طرح شاعر رابندرا ناتھ تیگور لکھتے ہیں کہ امام حسین کے نقش قدم پر چل کر ہی انصاف حاصل کیا جا سکتا ہے۔ سکاٹ لینڈ کے مورخ تھامس کارلائل لکھتے ہیں کہ امام حسین کی قربانی ثابت کرتی ہے کہ ایمانی قوت کے آگے عددی برتری کوئی معنی نہیں رکھتی ۔ کارلائل کے مطابق امام حسین یزید کے خلاف غرورتکبر اور ہٹ دھرمی نہیں بلکہ اپنے نانا اور والد حضرت علی بن ابی طالب کے چھوڑے ہوئے ورثہ کو بچانے کی خاطر کھڑے ہوئے تھے۔ اﷲ تعالی ہم سبکو سنت نبوی پر چلتے ہوئے معاشرے میں امن و بھائی چارگی کی فضا قائم رکھنے اور حقیقی اسلامی شعور بیدار کرنے کی ہمت و توفیق دے تاکہ توئین رسالت کے نام سیاسی دکانیں بند کر کے ھقیقی اسلام کا پرچم بلند کیا جا سکے۔ ہمیں ایک بھی ایسی حدیث نہیں ملتی جس کے مطابق حاکم وقت کے کسی فیصلے کے خلاف احتجاج کے لیے عام شہریوں کے راستے روکنے۔ بچوں کو سکول جانے اور مریضوں کو ہسپتالوں جانے سے روکنے کی اجازت ہو لیکن پاکستان میں اسلام کے نام یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ اﷲ تعالی ایسا کرنے والوں کو ہدایت دیتے ہوئے احترام آدمیت کی سمجھ عطا کرے۔ آمین۔

Quayyum Raja
About the Author: Quayyum Raja Read More Articles by Quayyum Raja: 55 Articles with 41051 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.