جارحانہ مزاج اور دنیا کا تیز ترین باؤلر شعیب اختر

دنیا کا تیز ترین اور پاکستان کا مایہ ناز فاسٹ باؤلر ٗ شعیب اختر 13 اگست 1975 کو راولپنڈی میں پیدا ہوا ۔ پانچ بہن بھائیوں میں وہ چوتھے نمبر پر ہے ۔ بچپن میں شعیب اختر کو پولیو کامرض لاحق ہوگیا تھا جس کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈاکٹروں نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ شاید یہ اپنے پاؤں پر بھی کھڑا نہ ہوسکے لیکن قدرت نے ان کو نہ صرف چلنے کا موقع فراہم کیا بلکہ دنیا کا تیز رفتار باؤلر بنا دیا ۔ ابتدا میں شعیب اختر کو باڈی بلڈنگ کا شوق تھا۔ چونکہ شعیب اختر کا بڑا بھائی باقاعدہ کرکٹ کھیلتا تھا اکثر اوقات شعیب بھی ان کے ساتھ دیکھنے کے لئے چلا جاتا لیکن کرکٹ میں عملی طور پر آنے کی وجہ یہ واقعہ قرار پایا کہ دوران میچ کالج ٹیم میں اچانک ایک لڑکا کم ہوگیا چونکہ شعیب وہاں موجود تھا اس لئے اسے بھی زبردستی ٹیم میں شامل کرلیاگیا ۔بے شک اس میچ میں انہوں نے باؤلنگ تو نہیں کروائی لیکن اس میچ کے بعد ان کے دل میں کرکٹ کھیلنے کا جذبہ ضرور پیدا ہوا ۔ یہی جذبہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جنون کی شکل اختیار کرگیا ۔
شعیب اختر نے کرکٹ کا باقاعدہ آغاز سمرسٹ خان ریسرچ لیبارٹری اور رالپنڈی کرکٹ ایسوسی ایشن کی جانب سے کیا ۔ اسی وابستگی کی بنا پر انہیں راولپنڈی ایکسپریس کے نام سے منسوب کیاگیا انہیں سپیڈ مرچنٹ کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے ۔بہترین کارکردگی کی بنا پر جلد ہی انہیں اے ڈی بی پی کرکٹ ٹیم میں جگہ میسر آگئی ۔ جہاں ملنے والی بہترین کوچنگ کی بدولت ان کی صلاحیتوں میں مزید نکھار پیدا ہوگیا ۔ فرسٹ کلاس کیریئر کے 88 میچوں میں انہوں نے 292 وکٹیں حاصل کیں جبکہ بہترین باؤلنگ 11 رنز کے عوض چھ وکٹیں تھیں ۔کہا یہ جاتا ہے کہ شعیب اختر پیدائشی طور پر فلیٹ فولڈڈ باولر تھا لیکن ڈومیسٹک کرکٹ نے انہیں تیز ترین باؤلر میں تبدیل کردیا ۔ اے ڈی بی پی کرکٹ ٹیم کی نمائندگی کرتے ہوئے شعیب اخترنے قومی ٹیم تک رسائی حاصل کی ۔ انٹرنیشنل کرکٹ میں متعارف ہونے سے پہلے شعیب اختر کو 1996 میں انگلینڈ کا دورہ کرنے والی پاکستان کی اے کرکٹ ٹیم میں شامل کیاگیا جہاں انہوں نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 25 وکٹیں حاصل کیں ۔ ڈسپلن کے حوالے سے منفی رپورٹ کی بدولت انہیں 1996 میں شارجہ کپ میں سلیکٹ کرنے کے باوجود قومی ٹیم میں شامل نہیں کیاگیا ۔ لیکن 1997-98 میں ہی انہیں قومی ٹیم کی جانب سے راولپنڈی ٹیسٹ میں ویسٹ انڈیز کے خلاف کھیلنے کا موقع دیا گیا ۔شعیب اختر کی بہترین اور تباہ کن باؤلنگ کی بدولت پاکستان نے جنوبی افریقہ اور بھارت کو ان کی ہوم گراؤنڈ پر شکست سے ہمکنار کیا ۔ان میچوں میں انہوں نے 99 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے باؤلنگ کروائی اس دوران میڈیا کی طرف سے بے مثال کوریج سے متاثر ہوکر شعیب اختر کے دماغ میں 100 میل فی گھنٹہ باؤلنگ کروانے کی خواہش پیدا ہوئی جس کی وجہ سے نہ صرف ان کی لائن لینتھ خراب ہوگئی بلکہ زیادہ زور لگانے سے کمر کے پٹھے بھی کھچ گئے اس وجہ سے انہیں کچھ عرصہ انہیں انٹرنیشنل کرکٹ سے باہر رہنا پڑا ۔تیز باؤلنگ کے جنون کی بدولت شعیب اختر نے نہ صرف انگلش کاؤنٹی ناٹنگھم شائر کی طرف سے کھیلنے کا موقع ضائع کیا بلکہ وہ ویسٹ انڈیز ٗ سری لنکا اور انگلینڈ کے خلاف سیریز بھی نہ کھیل سکے ۔

شعیب اختر کا کرکٹ کیریئر زخموں کی ایک طویل داستان سے مزین ہے انہی زخموں کی وجہ سے وہ ٹیم کے اندر اور باہر ہوتے رہتے ہیں ۔ جبکہ ڈسپلن کی خلاف ورزی بھی ان کی زندگی کا معمول بن چکی ہے نومبر 2006 میں انہیں ممنوعہ قوت بخش ادویات استعمال کرنے کے الزام میں دو برس تک کرکٹ سے جدائی کی سزا سنائی گئی لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ کے اپیلٹ کمیشن نے ان کی اپیل منظور کرتے ہوئے یہ پابندی ختم کردی ۔ بعدازاں شعیب اختر پر پی سی بی کے ضابطہ اخلاق کی بار بار خلاف ورزی ٗ ڈریسنگ روم کے ماحول اور پاکستانی ٹیم کے امیج کو خراب کرنے کا الزام ثابت ہونے پر پاکستان کرکٹ بورڈ کی انضباطی کمیٹی نے پانچ سال کی پابندی عائد کردی جس کے مطابق شعیب اخترسے نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ملک بھی پاکستان کی نمائندگی کا حق بھی چھین لیا گیا ۔پی بی سی کی اس ڈسپلن کمیٹی کے چیرمین لیفٹیننٹ جنرل منیر حفیظ جبکہ دیگر ممبران ندیم اکرم ٗ فاروق احمد خاں تھے انضباطی کمیٹی کے فیصلے کا اطلاق یکم اپریل 2008 سے شروع ہوا ۔ چیرمین کرکٹ بورڈ ڈاکٹر نسیم اشرف نے بھی کمیٹی کی رپورٹ کی توثیق کرتے ہوئے کہاکہ کرکٹ بورڈ نے شعیب اختر کے ساتھ متعدد بار رعایت کی مگر اب رعایت بہت ہوچکی تھی اگر انہیں مزید رعایت دی جاتی تو ڈریسنگ روم کا ماحول خراب ہونے کے ساتھ ساتھ بیرون ملک پاکستان کی ساکھ بھی مجروح ہونے کا خدشہ تھا ۔ شعیب اختر کو 20 ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے ایشو پر 34 لاکھ روپے جرمانہ اور 13 بین الاقوامی میچوں کی پابندی عائد کی گئی تھی اس وقت وہ دو سال کے پرو بیشن پریڈ پر تھے کہ وہ اپنا رویہ درست کرلیں گے ۔ لیکن شعیب اختر نے زمباوے کے خلاف ون ڈے سیریز کے لئے ٹیم میں شامل نہ کئے جانے ٗ سنٹرل کنٹریکٹ نہ ملنے اور پینٹینگولر لیگ کے دوران سہولتوں کے بارے میں پاکستان کرکٹ بورڈ پر تنقید کرکے خود کو سزا اور پابندی کا حق دار قرار دلوا لیا۔

شعیب اختر کا اس پابندی کے حوالے سے کہنا یہ تھاکہ بورڈ کا انکے ساتھ رویہ ہمیشہ متعصبانہ رہا ہے انہیں اس قدر سخت فیصلے کی توقع نہیں تھی پانچ سالہ پابندی سے درحقیقت ان کا کیریئر ختم کردیاگیا ہے چند مفاد پرست نہیں چاہتے کہ وہ دوبارہ قومی ٹیم میں واپس آئیں اور ملک کے لئے کھیلیں انہوں نے اس فیصلے کے خلاف عدالت میں جانے کا عندیہ دیا ۔

سابق ٹیسٹ کرکٹر جاوید میانداد کے مطابق شعیب اختر کا جرم اتنا بڑا نہیں تھا جتنی سزا سنادی گئی پانچ سال کا مطلب فاسٹ باولر پر تاحیات پابندی ہے کیونکہ فاسٹ باؤلر کاکیریئر زیادہ طویل نہیں ہوتا ۔ سابق کپتان وکٹ کیپر راشد لطیف نے کہا کہ شعیب اختر انٹرنیشنل کرکٹ کا بہت بڑا نام ہے یہ پابندی دو ماہ سے زائد نہیں رہے گی لیکن بورڈ کا سخت فیصلہ انہیں آئی سی ایل کی جانب دھکیل سکتا ہے ۔ سابق کرکٹر اعجازاحمد نے کہا کہ شعیب اختر کو اپنے کیریئر میں ہمیشہ فٹنس مسائل کا سامنا رہا ہے وہ8 یا 9 اوور سے زیادہ باؤلنگ نہیں کرواسکتا۔ان حالات میں پابندی لگانے کا فیصلہ بالکل درست ہے ۔آل راؤنڈر عبدالرزاق نے شعیب اختر پر پابندی پر سخت تنقید کی ان کے مطابق بورڈ سنئیر کھلاڑیوں کو نشانہ بنا رہی ہے ورلڈ کپ 2007 کے بعد ہی محسوس ہونے لگا تھا کہ اب سنئیر کھلاڑیوں کے لئے حالات تبدیل ہونا شروع ہوگئے ہیں پھر ٹونٹی ٹونٹی ورلڈ کپ سے ان کے ڈراپ ہونے کے بعد خدشات نے حقیقت کا روپ دھار لیا انہوں نے کہا کہ میرے بعد اب شعیب اختر کو ٹارگٹ بنالیا گیا ہے ۔

اب تک شعیب اختر 43 ٹیسٹ کھیل کر 169 وکٹیں حاصل کرچکے ہیں جبکہ ایک روزہ انٹرنیشنل کرکٹ میں انہوں نے 134 میچ کھیل کر 210 وکٹیں حاصل کی ہیں ۔

لیکن ستمبر 2008 میں کرکٹ بورڈ میں تبدیلی آنے کے بعد حالات نے یکدم کروٹ لی اور عدالت کی جانب سے بھی شعیب اختر کو ریلیف ملنے پر ایک بار پھر قومی کرکٹ ٹیم کی جانب سے انہیں کھیلنے کا موقع فراہم کیاگیا لیکن وہ ابوظہبی میں ویسٹ انڈیز کے خلاف صرف ایک ہی میچ کھیل سکے اور ان فٹ ہوگئے ۔آئیے ان کی زندگی اور معمولات کے بارے میں جاننے کے لئے ان سے گفتگو کرتے ہیں :۔
سوال :آپ کو کرکٹ کھیلنے کا شوق کیسے پیدا ہوا ؟
شعیب اختر: دراصل مجھ سے بڑے بھائی کرکٹ کھیلنے باقاعدگی سے جاتے تو مجھے بھی اپنے ساتھ لے جاتے تھے ان کی رفاقت اور سرپرستی کی بدولت ہی مجھے بھی کرکٹ کھیلنے کا شوق پیدا ہوا ۔
سوال : آپ کے دل میں بیٹسمین بننے کی بجائے باؤلر بننے کی خواہش کیسے پیدا ہوئی ؟
شعیب اختر: جن دنوں میں نے کرکٹ کی دنیا میں قدم رکھا تھا اس زمانے میں آل ٹائم گریٹ وسیم اکرم اور سوئنگ باؤلر وقار یونس پورے عروج پر تھے اور اپنی شاندار کارکردگی اور باؤلنگ سے دنیاکے بہترین بیٹسمینوں کو پویلین کا راستہ دکھا رہے تھے چونکہ میرے مزاج میں بھی جارحانہ پن بچپن سے ہی پایا جاتا ہے اس لئے میں نے بطور خاص باؤلنگ کے شعبے کا انتخاب کیا کہ یہی شعبہ میرے مزاج کے عین مطابق دکھائی دیتاتھا بلکہ میری یہ اولین خواہش تھی کہ میں بھی وسیم اکرم اور وقار یونس کی طرح دنیاکے عظیم بلے بازوں کو اپنی تیز اور سوئنگ باؤلنگ سے نگنی کا ناچ نچاؤں۔یہی امنگ مجھے باؤنگ کے شعبے میں لے آئی ۔
سوال ؛ کیا اس جارحانہ پن کی وجہ سے لڑائی جھگڑے بھی ہوتے تھے؟
شعیب اختر: جی ہاں بچپن سے ہی جارحانہ پن میرے مزاج کا حصہ تھا اور اب بھی ہے جس کا استعمال میں میدان کرکٹ میں باؤلنگ کرتے ہوئے اکثر کرتا دکھائی دیتا ہوں میں بچپن میں شرارتیں بھی بہت کرتا تھالیکن میں ایسی شرارت نہیں کرتا تھاجس سے کسی کی دل شکنی ہو یا کسی کو میری وجہ سے نقصان اٹھانا پڑے ۔ میرا تعلق گجر فیملی سے ہے اس لئے غلط بات کو میں برداشت نہیں کرسکتا اور نہ ہی جھوٹ کو سچ کہنے پر مجھے مجبور کیا جاسکتا ہے اسی وجہ سے لوگ مجھ سے ناراض ہوجاتے ہیں ۔
سوال ؛کرکٹ کے ساتھ ساتھ حصول تعلیم کے لئے آپ کی دلچسپی کس حد تک تھی ؟
شعیب اختر: کرکٹ کھیلنے کا جنون تو مجھ پر اس لئے سوار تھا کہ میں دنیا کا سب تیز رفتار باؤلر بننا چاہتا تھا اورمجھے اس میں کامیابی بھی دکھائی دے رہی تھی لیکن پڑھائی کے معاملے میں ٗ میں زیادہ ہوشیار اور سنجیدہ نہیں تھا لیکن جتنی بھی پڑھائی کرتا دل لگا کر کرتا یہی وجہ ہے کہ میں نے اگرکسی کلاس میں ٹاپ نہیں کیا تو فیل بھی نہیں ہوا ۔
سوال :آپ اپنے دن کا آغاز کیسے کرتے ہیں ؟
شعیب اختر: میرے دن کا آغاز نماز تہجد سے ہوتا ہے جس کے بعد میں فزیکل ٹریننگ اور کرکٹ پریکٹس کے لئے چلا جاتاہوں ۔
سوال : کس بات سے ڈر لگتا ہے ؟
شعیب اختر: مجھے اس بات سے ڈر لگتاہے کہ کوئی مجھ پر ملک بیچنے کا الزام نہ لگا دے ٗ وطن عزیز سے میری وفا دار ی پر شک نہ کرلے یہی وجہ ہے کہ میں نے اپنی ذات کو ان شکوک و شبہات سے پاک رکھنے کے لئے ہمیشہ سو فیصد کارکردگی دکھانے کی جستجو کی ہے اور اس کوشش میں اکثر زخمی بھی ہوجاتا ہوں ۔
سوال :آپ دنیا کے تیز ترین باؤلر ہیں اس تیز رفتاری کو برقرار رکھنے کے لئے کیا اہتمام کرتے ہیں ؟
شعیب اختر: مجھے اپنی رفتار اور فٹنس کو برقرار رکھنے کے لئے عام باؤلروں سے بڑھ کر محنت کرنی پڑتی ہے چونکہ میرے جسم کے جوڑ ابنارمل ہیں ان کو طاقت ور رکھنے کے لئے بڑی
جدوجہد کرنی پڑتی ہے ابنارمل باڈی کی وجہ سے مجھے زیادہ زخموں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔
سوال: آپ کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ آپ ٹیم کی بجائے اپنے لئے کھیلتے ہیں کیا واقعی ایسا ہے ؟
شعیب اختر: نہیں نہیں یہ تاثر غلط ہے میں تو ہمیشہ ملک کے لئے کھیلتا ہوں پاکستان جیتے گا تو میرا نام خود بخود سامنے آجائے گا یہی سوچ ہمیشہ مجھ پر حاوی رہتی ہے ۔
سوال : آپ کے حوالے سے کئی تنازعات سامنے آئے ہیں کبھی بورڈ کے حوالے سے ٗ کبھی سلیکشن کمیٹی اور کبھی کپتان کے ساتھ اختلافات کی صورت میں ۔ آپ تنازعات کا پیچھا کرتے ہیں یا تنازعات آپ کا ؟
شعیب اختر: میں تو تنازعات سے دور بھاگتا ہوں لیکن کچھ انجانے میں ہوجاتا ہے اور کچھ زبردستی مجھ پر نتھی کردیا جاتا ہے ۔ دونوں صورتوں میں قصور میرا ہی سمجھا جاتا ہے ۔
سوال : فاسٹ باؤلر کو عموما بہت غصہ آتا ہے جب بیٹسمین چوکا یا چھکا لگاتا ہے تو آپ کیا محسوس کرتے ہیں ؟
شعیب اختر:غصہ تو مجھے بھی بہت آتا ہے بلکہ میرا دل چاہتا ہے کہ مخالف بلے باز کو تیزباؤلنگ اور خطرناک باؤنسر کرکے نیست و نابود کردوں لیکن میں دل کی بات ماننے کی بجائے دماغ کی بات مانتا ہوں کیونکہ کرکٹ میں اگر آپ غصے میں آجائیں گے تو اچھی باؤلنگ نہیں کرسکیں گے اگر خود کو ریلیکس رکھیں گے تب ہی اچھی باؤلنگ ہوگی ۔ میری یہی کوشش ہوتی ہے کہ اپنی لائن و لینتھ پر باؤلنگ کروں اور بلے باز کو دوبارہ آزادانہ سڑوک نہ کھیلنے دوں ۔لیکن جو بلے باز مجھے چھکا یا چھکا لگاتا ہے اس کی وکٹ حاصل کرنا تو میں اپنا فرض سمجھتا ہوں ۔ مقابل بلے باز کو آؤٹ کرنے کے بعد ہواؤں میں اڑنے کو دل چاہتاہے اس لئے میں ہائی جمپ لگاتا ہوں ۔
سوال :آجکل آپ اپنی باؤلنگ سے کس حد تک لطف اٹھا رہے ہیں ؟
شعیب اختر:میں پہلے کی طرح اپنی باؤلنگ کا حقیقی لطف اٹھا رہا ہوں میں نے اپنی ساری توجہ کرکٹ پر مرکوز کررکھی ہے ۔
سوال : آپ کے پرستاروں میں زیادہ تعداد خواتین کی ہے اگر خواتین پرستار کا فون آئے تو کس قسم کا ردعمل ظاہر کرتے ہیں ؟
شعیب اختر: گراؤنڈ میں تو کافی ریزرو رہنا پڑتا ہے کیونکہ یہ وقت کا تقاضا بھی ہوتا ہے اور گیم کا اصول بھی ٗ البتہ ہوٹل میں ہوں تو ضرور بات کرتا ہوں کیونکہ لوگ ہم سے محبت کرتے ہیں اور ہمیں قریب سے دیکھنا اور باتیں کرنا چاہتے ہیں انہی کی محبت اور دعاؤں کی وجہ سے ہم کامیابیاں حاصل کرتے ہیں اس لئے میں ہمیشہ بڑے پیار سے فون پر اپنے مداحوں کی بات سنتا ہوں ۔
سوال :عہد حاضر کا بڑا باؤلر کونسا ہے خود کو سمجھتے ہیں یا کسی اور کو ؟
شعیب اختر: نہیں خود کو کیا سمجھنا ہے ہمار ے عہد میں وسیم اکرم ٗ وقار یونس ایسے باؤلر ہیں جو صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں انہیں آل ٹائم گریٹ کرکٹر قرار دیا جاسکتا ہے ۔
سوال : کونسے کرکٹ میدان میں کھیل کرانجوائے کرتے ہیں ؟
شعیب اختر: میں انگلینڈ کے لارڈز ٗ ہیڈنگلے ٗ لیڈز ٗ آسٹریلیا میں سڈنی ٗ ملبورن ٗانڈیا کے کلکتہ اور پاکستان کے قذافی سٹیڈیم میں کھیل کر ہمیشہ انجوائے کرتا ہوں ۔
سوال ؛ فارغ وقت میں کیا کرتے ہیں ؟
شعیب اختر: اپنی ماں کے پاؤں دباتا ہوں یا دوستوں کے ساتھ وقت گزارنے میں سکون محسوس کرتا ہوں مجھے ہر وقت کچھ سیکھنے کی جستجو لگی رہتی ہے ۔
سوال : کوئی ایسی تمنا یا آرزو جس کے پوری ہونے کی خواہش ہو ؟
شعیب اختر:اب صرف ایک ہی آرزو ہے کہ اﷲ تعالی مجھے حج کی سعادت نصیب فرمادے ۔
سوال : کیا وجہ ہے کہ آپ کے ٹریفک چالان بہت ہوتے ہیں ؟
شعیب اختر: تیز باؤلنگ کرنے کے ساتھ ساتھ مجھے تیز رفتار گاڑی چلانے کا بے حد شوق ہے اور اس تیز رفتاری کی وجہ سے ہی میرا اکثر چالان ہوجاتا ہے ۔
سوال : کوئی خواہش جو غیر متوقع طور پر پوری ہوگئی ہو؟
شعیب اختر:مجھے ورلڈ ٹور کی خواہش تھی جو کہ غیر متوقع طور پر پوری ہوگئی ہے ۔
سوال : تنہائی میں کیا خیال آتا ہے ؟
شعیب اختر: تنہائی میں خاموش بیٹھنا بہت اچھا لگتا ہے کیونکہ میں گھنٹوں تنہائی میں بیٹھ کر خود کونئے چیلنجوں کامقابلہ کرنے کے لئے تیار کرتا ہوں ۔
سوال : کوئی ایسی شخصیت جو بڑی شدت سے یاد آتی ہو ؟
شعیب اختر: دونوں جہان کے والی سرور کونین رحمت للعالمین حضرت محمد مصطفی ﷺ کی یاد ہر وقت ستاتی رہتی ہے ۔
سوال : کسی شخصیت پر جان قربان کرسکتے ہیں ؟
شعیب اختر: حضور نبی اکرم ﷺ کے بعد اپنی ماں پر
سوال :کرکٹ کے علاوہ کون سے کھیل پسند ہیں ؟
شعیب اختر:فٹ بال اور سنوکر پسند ہے جب بھی وقت ملتا ہے تو سنوکر اور فٹ بال ضرور کھیلتا ہوں ۔
سو ال : آپ کا سٹار کون سا ہے ؟
شعیب اختر:میرا سٹار اسد ہے جو کہ سٹارز کا بادشاہ کہلاتا ہے ۔
سوال ; زندگی کا نظریہ کیا ہے ؟
شعیب اختر: میری زندگی کا نظریہ یہی ہے کہ آدمی ہمیشہ اپنے والدین او راساتذہ کا ادب و احترام کرے اپنے سنیئرز کی عزت کرے ہمیشہ سچ بولے ٗ زندگی کو خوب انجوائے کرے ٗ خوب محنت کرے ٗ کیونکہ کامیابی کا راز اسی میں پوشیدہ ہے ۔
سوال ; شادی کب تک کرنے کا ارادہ ہے ؟
شعیب اختر: دوستی تو بہت سے لوگوں سے ہے لیکن جب شادی کروں گا تو سب کو پتہ لگ جائے گا ۔

آج کل موصوف لاہور قلندر ٹیم کے ساتھ وابستہ ہیں اور کبھی کبھار کمنٹری بھی کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔
 

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 784613 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.