تہذیب فارسی زبان کا لفظ ہے اور اس کا مطلب رسم و رواج ہے
۔ رہن سہن ، خیالات اور رسم و رواج کسی بھی قوم کے لیے ایک مرکزی کردار ادا
کرتے ہیں اور ایک نمایاں حیثیت رکھتے ہیں ۔ تہذیب و تمدن کسی بھی معاشرے کی
ترقی کے لیے انتہائی اہم ہیں اس کے بغیر کوئی بھی معاشرہ شاید ترقی حاصل
نہیں کر سکتا ۔ ہمارا تعلق ایک اسلامی معاشرے سے ہے لیکن اگر نگاہ اٹھا کر
ایک جائزہ آجکل کے معاشرے کا لیا جائے تو یہ کہنا کافی مشکل ہو گا کہ ہمارا
تعلق اسلامی معاشرے سے ہے کیونکہ ہمارے معاشرے میں تو تہذیب آؤٹ آف فیشن
ہوگئی ہے۔
فیشن کے نام پر ہم نے تہذیب کو اتار کر پھینک دیا ہے ۔ ایک اسلامی معاشرے
میں عورت کے دوپٹہ کی کیا اہمیت ہے اس سے ہم سب آشنا ہیں مگر شاید وہ لوگ
اب تک نا آشنا ہیں جنہوں نے مغربی طرزِ زندگی کو اپناتے ہوئے ماڈرن فیشن کے
نام پر دوپٹہ اتار کر رکھ دیا ہے ۔ لڑکیوں کا بے خوف و نڈر ہو کر بغیر
دوپٹہ بازاروں میں گھومنا اب بہت عام ہوگیا ہے پوچھا جائے تو کہا جاتا ہے
کہ بھئی آجکل کا فیشن ہے ۔ بلکہ اب تو بڑے بڑے ڈزائینرز نے بھی ایسے کپڑے
بنانے لگیں ہیں جن کے ساتھ دوپٹہ نہیں ہوتا اور تو اور آستین بھی غائب کر
دیتے ہیں کیا اس طرح کا لباس ہماری تہذیب کا حصہ ہے ؟
ہماری تہذیب کا توازن بگاڑنے میں کافی حد تک ہاتھ سوشل میڈیا کا ہے ۔ سوشل
میڈیا نے ایک طوفانِ بدتمیزی مچایا ہوا ہے فیشن اور ٹرینڈ کے نام پر عزتوں
کو اچھالا جارہا ہے ۔ اگر آج سے دس یا پندرہ سال پہلے کی بات کی جائے تو اس
وقت کے ڈراموں میں اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا تھا کہ کوئی کہانی تہذیب
سے ہٹ کر نہ ہو یا معاشرے میں منفی اثرات جنم نہ لیں بلکہ ایک سبق آموز
نقطہ نظر کو عوام کے سامنے رکھا جائے۔ مگر اب جس نقطہ نظر کو اہمیت دی جاتی
ہے وہ ہے ٹٰی آر پی ۔کیونکہ مقابلہ سخت ہوگیا ہےاور ہر چینل کی ہی کوشش
ہوتی ہے ذیادہ سے ذیادہ لوگوں کی توجہ حاصل کر لی جائے اور اس مقابلے میں
ذیادہ تر تہذیب کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے۔ نازیبا لباس کو ترجیح دی
جاتی ہے اور کچھ ایسی حدوں کو عبور کیا جاتا ہے جس کی اجازت ہمیں اسلام میں
نہیں ملتی۔ حال ہی میں کئی ایسے ڈرامے نجی چینل پر دکھائے جا رہے ہیں جو
تہذیب کی موت کی زندہ مثال ہیں ۔
سوشل میڈیا ایپ نے انسانی دماغ خراب کر کے رکھ دیا ہے اور یہان تو تہذیب
مکمل طور پر زندہ درگور ہو گئی ہے لوگ اپنی سوشل ایپ پر اپنی خاندانی
تصاویر بڑے مزے سے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنانے کے لیے اپلوڈ کر دیتے ہیں
نتائج کی فکر کیے بغیر۔ وہ اس بات سے ناواقف ہیں کہ وہ جتنی بھی پرائیوسی
لگا لیں ان کی تصاویر غیر محفوظ ہیں اور وہ کسی ایسے ہاتھ میں بھی جا سکتیں
ہیں جو اسکا قدرے غلط استعمال کرے ۔ ناجانے کیوں لوگ یہ سب کرتے ہوئے یہ
بھول جاتے ہیں یہ تصاویر ناجانے کس کس آنکھ سے گزرے گی ۔
تعلیمی نظام نےبھی اپنے رنگ ڈھنگ بدل لیے ہیں ماڈرن نظامِ تعلیم میں اسلامی
تعلیمات کا تناسب کم سے کم ہوتا جارہا ہے اور مغربی طرز کی تعلیم سر آنکھوں
پر رکھی جاتی ہے ۔ اسکولوں میں بچوں کو انگلش ناول پڑھائے جاتے ہیں جن کا
موضوع انتہائی غیر مناسب ہوتا ہے اسکولوں میں ہالووین اور بارن فائر جیسی
تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے جس کا ہمارے معاشرے سے کوئی لینا دینا نہیں
ہے ۔
بلاشبہ ہم نے اپنے معاشرے سےتہذیب کو باہر نکالنے کے بیشتر اقدامات اٹھالیے
ہیں اور مستقبل میں تہذیب اپنا راستہ ناپ کر جا بھی چکی ہوگی اور ہم جیسے
لوگوں کو معلوم تک نہ ہوگا کیونکہ برائی جتنی تیزی سے پھیلتی ہے اتنی تیزی
سے وہ ہماری زندگی کا حصہ بن جاتی ہے اور ہم تہذیب و تمدن کے قاتل۔ اگر ہم
نہیں سوچیں گے نہیں سمجھیں گے تو ایک دن ایسے نام نہاد اسلامی معاشرے کا
حصہ ہونگے جہاں اسلامی تہذیب ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گی ۔
|