دنیا میں ہر زندہ قوم چاہتی ہے کہ اقوامِ عالم میں ان کا
بول بالا ہو ، ان کی پہچان ہو ۔وہ کسی بھی صورت خود کو گم کردینے یا فنا ہو
جانے کی خواہش نہیں کرتیں۔ خود کو کسی قوم یا ریاست کی حیثیت میں زندہ
رکھنے کا یہ احساس ہی در اصل قومی تشخص کہلاتا ہے ۔اس قومی تشخص کا مظہر
اسکی مخصوص روایات، زبان ، ثقافت، ملی شعور ، قومی تاریخ قومی نشانات اور
خاص کر مذہب جیسے اجزائے ترکیبی ہوتے ہیں جو اس قوم کی روزمرہ زندگی کا حصہ
ہوتے ہیں ۔ کثیر قومی ممالک قومی تشخص کے حوالے سے انتشار کا شکار رہتے ہیں
اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کسی قدر ِ مشترک کے نہ ہونے کی وجہ سے اسے شعیرہ
نہیں بنا سکتے ۔اسی طرح ذہنی غلامی کا شکار قومیں بھی قومی تشخص کے حوالے
سے پسماندگی کا شکار ہوتی ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ خود کو پست گردان لیتی
ہیں اور ان اقوام سے وابستہ افراد دیگر اقوام کے شعار کو اپنا کر بڑائی
محسوس کرتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں قومی تشخص کی کوئی وقعت نہیں رہتی ۔البتہ
کسی اندرونی یا بیرونی دشمن سے مڈبھیڑ یا کسی بڑی افتاد سے مقابلے کے دوران
ان اقوام کی قومیت اور جذبہ حب الوطنی بیدار ہوتی ہے اور کسی حد تک ان کا
قومی تشخص بھی ابھر کر سامنے آتا ہے۔بہر حال قومی تشخص ایک فطری تقاضا ہے
اور یہ پہچان کا ذریعہ ہے جس سے اجتماعی زندگی میں انسان کی پہچان ہوتی ہے۔
قیام پاکستان کو سات دہائیاں بیت چکی ہیں لیکن ہمارا قومی تشخص انتشار کا
شکار رہا ہے ۔اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ مملکت خداداد کی اشرافیہ نے ذہنی
غلامی سے نہ خود کو نکالا ہے نہ ہی عوام الناس کو آزادی کے ثمرات سے آگاہ
ہونے کا موقع دیا ہے بلکہ انگریز سامراج کے نو آبادیاتی نظام کا تسلسل
برقرار رکھے ہوئے ہے ۔یہ وہی نو آبادیاتی نظام ہے جس نے یہاں "تقسیم کرو
اور حکومت کرو " کے اصول کے تحت حکومت کی ۔ ہمارے انگریز آقاؤں نے معاشرے
کی تقسیم کے لئے جو لکیریں کھینچیں ہم انہی پہ فقیری کرتے چلے جا رہے ہیں ۔ایک
دوسرے کے درمیان بنائی گئی دراڑوں کو پاٹنے کے بجائے ہم نے انہیں خلیج میں
بدل ڈالا ۔ اس طرح ہم ایک قوم کی صورت اپنا تشخص قائم نہ کر پائے ۔ اور اس
پہ مستزاد یہ کہ جو قومی قیادت ہمیں نصیب ہوئی وہ بھی ہماری امیدوں کی
ترجمان نہ تھی انہوں نے قومی تشخص کو بنانے کے بجائے اسے بگاڑنے میں اپنا
کردار ادا کیا۔انہوں نے یہ چراغ جلائے ہی کب تھے کہ منزل تک پہنچنے تک
انہیں جلائے ہی رکھتے وہ اپنے گھر کے چولہے جلا کر ان سے غافل ہو گئے ۔
بقول شاعر
نیرنگی ٔ سیاستِ دوراں تو دیکھیے
منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے
پاکستان کثیر الثقافتی ملک ہے جہاں لگ بھک 80 زبانیں بولی جاتی ہیں ۔ چار
صوبے ہیں ہر علاقے کی بودوباش موسمی تغیرات کے اعتبار سے مختلف ہے ۔ رسوم و
رواج میں واضح فرق نظر آتا ہے ۔ایسی صورت حال میں ایک قومی لباس ، قومی
زبان قومی کھیل وغیرہ پر متفق ہونا نہایت ہی مشکل بلکہ ناممکن امر نظر آتا
ہے ۔ لیکن دوسری جانب جو قدر ان میں مشترک ہے وہی دراصل پاکستان کی بنیاد
ہےیعنی دین ِاسلام ۔ اسی اساس پہ یہ ملک قائم ہوا ، اسی کی خاطر کروڑوں
افراد نے ہجرت کی ، لاکھوں اس کی خاطر مارے گئے اور کروڑوں بری طرح متاثر
ہوئے اور یہی ایک قدر مشترک ہے جو مختلف الانواع افراد کے دلوں کو جوڑنے کا
واحدسبب ہے ۔ پاکستان کا قیام دو قومی نظریے کی بنیاد پہ عمل میں آیا یعنی
ہندوستان میں آباد مسلمان اپنے عقیدے عبادات اور معاشرت میں یہاں بسنے والی
ہندو اکثریت سے اس قدر مختلف ہیں کہ نہ تو وہ ان کے زیرِ اثر اقلیت بن کر
رہ سکتے ہیں اور نہ ہی اپنا تشخص گم کر کے ہندومت میں گھل مل سکتے ہیں ۔ اس
لئے وہ علاقے جو مسلم اکثریت پہ مبنی ہیں وہ ریاست پاکستان کا حصہ بنیں اور
جو ہندو اکثریت کے ہیں وہ بھارت کا حصہ۔ مسلمانان ہند نے اپنا تن من دھن
قربان کر کے پاکستان حاصل کیاتاکہ اسلامی تعلیمات (معاشی ، سیاسی و معاشرتی
عدل) کے مطابق نظام زندگی کو ڈھالا جائے ۔لیکن ہم اسلامی نظام زندگی کو
قائم کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔ بلکہ ہماری اشرافیہ نے دوقومی نظریے
کو بھی مشکوک بنایا اور قیام پاکستان کے مقصد کو بھی سیکولر ایجنڈے کے طور
پر پیش کرنے سے گریز نہیں کیا۔اس طرح ہم اپنا اسلامی تشخص قائم کرنے میں
ناکام رہے ہیں البتہ کاغذی اور آئینی طور پر ہم ایک اسلامی جمہوریہ ہیں ۔
ہمارا آئین اسلامی ہے لیکن فی الحقیقت ہم ابھی تک نو آبادیاتی نظام میں رہ
رہے ہیں فرق صرف اتنا پڑا ہے کہ حکمرانوں کے چہرے بدل گئے ہیں ۔ سفید رنگت
کے ولائیتی انگریز کے بجائے گندمی رنگت کے دیسی انگریز اب یہاں کے حاکم ہیں
۔بقول شاعر
مئے کدے میں ایک دن اک رندِ زیرک نے کہا
ہے ہمارے شہر کا والی گدائے بے حیاء
اسلامی تشخص قائم کرنے کے لئے ناگزیر ہے کہ انگریز کے تربیت یافتہ اس
حکمران طبقے کی جگہ اس ملک کے مخلص لوگوں کو مسند اقتدار پہ بٹھایا جائے۔
قومی تشخص کو اجاگر کرتا ایک شعیرہ قومی زبان ہے ۔ مسلمانان ہند کا تشخص
قائم کرنے والی زبان اردو ہے یہی ہندوستان کے مسلمانوں کی پہچان ہے ۔
پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی اسے قومی زبان قرار دیا گیا لیکن سات دہائیاں
گزرنے کے باوجود اسے سرکاری زبان کا درجہ نہیں دیا جا سکا اور نہ ہی اسے
تعلیمی و تحقیقی زبان قرار دیا گیا۔ یہ اپنی قومی زبان کے ساتھ بدترین
زیادتی ہے ۔ پاکستان کے آئین کے تحت 1988 کے بعد تمام تر دفتری اور سرکاری
زبان اردو ہو گی لیکن ابھی تک اس پہ عمل درآمد نہیں ہو سکا ۔ بعد ازاں
سپریم کورٹ نے اپنے انگریزی فیصلے میں اردو کو بطور سرکاری زبان نافظ کرنے
کا حکم صادر فرمایا لیکن اب تک کی عدالتی کاروائی بھی انگریزی میں ہی ہو
رہی ہے ۔قومی زبان کسی قوم کی ترقی کی ضمانت ہو سکتی ہے جیسا کہ چینی ،
جاپانی ، روسی ، فرانسیسی ، جرمن اور دیگر زبانیں اپنے اپنے ممالک کی ترقی
کا باعث ہیں۔ ان ممالک کے لوگ اپنی زبان پہ فخر کرتے ہیں لیکن ہمارے ہاں
قومی زبان کی تحقیر کا یہ عالم ہے کہ انگریزی سکولوں میں طلبہ و طالبات کو
اردو بولنے پہ جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے ۔اردو زبان نے دین اسلام کی خدمت کی
ہے، دینی ادب کو محفوظ کیا ہے تفسیر قرآن اور احادیث مبارکہ کے حوالے سے جو
کام اردو زبان میں ہوا ہے شاید ہی دنیا کی دیگر زبان میں ہوا ہو ۔اردو کی
اس دینی خدمت کی بنا پر اسے دوام حاصل ہے لیکن اردو سے بے اعتنائی برتنے پر
ہمارا قومی تشخص دھندلاہٹ کا شکار ہو رہا ہے ۔قومی زبان کے بغیر ہماری
اجتماعی زندگی کا خاکہ یہ شعر اچھی طرح بیان کرتا ہے۔¬
پھرا فضاؤں میں کرگس اگرچہ شاہین وار
شکارِ زندہ کی لذت سے بے نصیب رہا
پاکستان کا قومی لباس شلوار قمیص ہے اور یہی ہر صوبے اور ہر علاقے کا
روزمرہ کا پہناوہ بھی ہے ۔ لیکن قومی لباس کے ساتھ جاری ہمارا سلوک کسی ظلم
ناروا سے کم نہیں ۔پاکستان کے سرکاری اداروں ، عدالتوں ، افواج ، اور دیگر
اہم اداروں کا سرکاری لباس قمیص شلوار نہیں ۔ صدر مملکت اور وزیر اعظم کسی
وقت شلوار قمیص اور شیروانی میں ملبوس دکھائی دیتے تھے لیکن وہ روایت بھی
دم توڑ گئی ہے ۔ غیر ملکی دوروں کے موقع پر ہمارے اعلیٰ عہدیداران غیرملکی
لباس میں ہی نظر آتے ہیں ۔ تعلیمی اداروں کا لباس بھی شلوار قمیص نہیں ۔ اب
تو لوگ نجی محافل میں بھی شلوار قمیص پہننے کو عار سمجھنے لگے ہیں ۔انگریز
حکمرانوں نے اس لباس کی تحقیر کے لئے یہ انتظام کیا تھا کہ شلوار قمیص اور
پگڑی ان لوگوں کو پہنائی جاتی تھی جن کا معاشرے میں کمتر مقام متعین کیا
گیا تھا ۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ لوگ اس لباس کو نفرت کی نگاہ سے دیکھیں ،
اپنے بچوں کو اس سے دور رکھیں اور انگریزی لباس کو زیب تن کرتے ہوئے فخر
محسوس کریں ۔ انگریز کو یہاں سے گئے سات دہائیاں بیت گئیں مگر ان کی یہ
روایات ابھی تک برقرار ہیں ۔ بڑے دفاتر، عدالتوں اور نجی ہوٹلوں وغیرہ پہ
چلے جائیں ،خاکروب ، چپراسی اور دروازے پہ کھڑے ملازم کا لباس تو شلوار
قمیص ہوگا لیکن مینیجر،افسران اور ججوں کا لباس انگریزی ہوگا ۔اسی طرح
امتحانات اور انٹرویو کے دوران ان امیدواران کو زیادہ نمبر دئیے جاتے ہیں
جنہوں نے انگریزی لباس زیب ِتن کیا ہو۔قومی لباس کی یہ تحقیر قومی تشخص پہ
کاری ضرب ہے لیکن ہم دھڑلے سے ضرب لگائے جا رہے ہیں ۔
اب قومی کھیل کو لے لیجیئے ۔ پاکستان کا قومی کھیل ہاکی ہے ۔ پاکستان نے اس
کھیل میں اپنا لوہا منوایا ہے ۔ چار بار عالمی کپ جیتا ہے ۔ لیکن اس کھیل
پہ حکومت کی توجہ صفر ہے ۔ پاکستان بھر میں ہاکی گراؤنڈ نہ ہونے کے برابر
ہیں ۔ بہت کم تعلیمی اداروں میں ہاکی کھیلنے کا انتظام ہے ۔ اس کے مقابلے
میں کرکٹ کو ہر جگہ ترجیح دی جاتی ہے ۔ کرکٹ کے کھلاڑیوں کے لئے جو مراعات
ہیں وہ ہاکی کے کھلاڑیوں کو میسر نہیں ۔ ہاکی کے کھیل کو میڈیا میں بھی جگہ
نہیں دی جاتی جبکہ کرکٹ میچ پورا دن ٹی وی سکرین پہ دیکھا جا سکتا ہے ۔
حکومت کے علاوہ نجی کمپنیاں اور کثیر القومی (ملٹی نیشنل) کمپنیاں جس طرح
کرکٹ کی ترویج کے لئے کوشاں ہیں اس کا عشر عشیر بھی قومی کھیل کو نہیں مل
رہا ۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری ہاکی ٹیم زبوں حالی کا شکار ہے ۔
قومی ایام کا قوموں کی زندگی میں اہم کردار ہوتا ہے ۔ زندہ قومیں اپنے قومی
ایام کو بھرپور طریقے سے مناتی ہیں اور ان ایام میں اپنے قومی تشخص کا
بھرپور طریقے سے اظہار کرتی ہیں ۔ لیکن ہمارے قومی ایام بھی یا تو محض چھٹی
کی حد تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں یا پھر بحث مباحثے کا باعث بن گئے ہیں ۔
شکوک و شبہات پیدا کرنے والے اذہان نے قومی ایام کو مشکوک کرنے میں کوئی
کسر اٹھا نہیں رکھی ۔ 14 /اگست کو قوم یوم آزادی مناتی ہے لیکن کچھ عرصے سے
اس حوالے سے بھی بحث چھیڑ دی گئی ہے کہ یوم ِ آزادی 14/ اگست ہے یا 15/
اگست ۔ اسی طرح 6 ستمبر کو یوم دفاع منایا جاتا ہے لیکن آج کل ہمیں نجی
چینل اور سوشل میڈیا پہ بتایا جا رہا ہے کہ ہم تو یہ جنگ ہار گئے تھے ۔ پھر
جو لوگ ان ایام کو مناتے بھی ہیں تو غیروں کے رنگ میں رنگ کر ۔ جشن آزادی
منانے کا بھلا یہ کون سا طریقہ ہے کہ موسیقی کے پروگرام کیے جائیں اور
بھارتی گانوں پہ رقص و سرور کیا جائے ۔ یا خود کو رنگوں میں نہلا کر آوارگی
کا مظاہرہ کیا جائے اور سڑکوں پہ طوفان بدتمیزی برپا کیاجائے۔ اسی طرح جو
ایام مذہبی عقیدت و احترام کے حامل ہیں ہم نے ان کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا
ہے مثلا عید ین جو اسلامی بھائی چارے اور مساوات کی عکاسی کرتے ہیں لیکن
ہمارے میڈیا نے انہیں عیاشی اور تشہیر کے ایام میں بدل دیا ہے ۔بلکہ گزشتہ
چند سال سے تو رمضان المبارک کو بھی نہیں بخشا جا رہا ۔ بقول شاعر
فساد قلب و نظر ہے فرنگ کی تہذیب
کہ روح اسکی مدنیت کی رہ نہ سکی عفیف
یہی حال ہم نے قومی شاعر ، قومی درخت ، قومی پھول ، قومی جانور قومی ورثہ
وغیرہ کے ساتھ بھی روا رکھا ہوا ہے ۔ قوم سے وابستہ ان سب اصناف کی ہماری
انفرادی و اجتماعی زندگی میں کوئی جھلک نظر نہیں آتی ۔ قومی ترانے کی
بازگشت صبح کے وقت سکول کی اسمبلی میں سنائی دیتی ہے ۔ لیکن ایک نجی ٹی وی
نے اس قومی ترانے کو بھی تعصب کا شاخسانہ قرار دینے کی بھرپور کوشش کر ڈالی
۔ ان کے مطابق قومی ترانہ ایک ہندو نے لکھا تھا جو قائد اعظم کو پسند آیا
تھا لیکن مسلم عصبیت نے اسے قومی ترانہ بننے نہیں دیا۔ یہ تاریخی حقائق سے
متصادم بات تھی لیکن شکوک و شبہات پھیلانے کے لئے اسے نشر کیا گیا۔ صرف ایک
قومی پرچم ہے جو ہر منزل پہ لہراتا نظر آتا ہے لیکن اس قومی پرچم کو دیگر
پرچموں سے بلند کرنے میں ہم نے کوئی خاطر خواہ کردار ادا نہیں کیا ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری حکومت قومی تشخص کے مسئلے کو سنجیدگی سے لے
اور قومی تشخص قائم کرنے کے لئے عملی اقدامات کرے شہریوں کو تربیت فراہم
کرنابھی حکومت کی ہی ذمہ داری ہے لہذا بوجھ حکومت کے ہی کاندھوں پہ آتا ہے
۔پاکستان مدینہ منورہ کے بعد واحد ریاست ہے جو اسلام کے نام پہ قائم ہوئی
ہے لہذا اسے ریاست مدینہ کے طرز پہ ڈھالا جائے اور یہاں اسلام کے آفاقی
نظام عدل (سیاسی، معاشی ، معاشرتی عدل) کو یہاں نافظ کیا جائے ۔ ملک کے
تمام سرکاری و نجی اداروں میں اردو کو دفتری زبان کی حیثیت سے نافظ کیا
جائے تاکہ قوم کی صحیح طور پہ ترجمانی ہو سکے ۔ قومی ایام کو بھرپور طریقے
سے منایا جائے اور ان ایام سے اور قومی تاریخ سے متعلق شکوک و شبہات پیدا
کرنے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے ۔قومی قرار دی جانے والی ہر صنف کو
بھرپور توجہ دی جائے تاکہ وہ قومی تشخص کو اجاگر کر سکیں ۔ اگر حکومت قومی
تشخص قائم کرنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرے تو بہت جلد پاکستانی قوم خود کو
ایک زندہ قوم کی حیثیت سے منوا سکے گی ۔ بصورت دیگر نسل ِنَو یہ کہنے میں
حق بجانب ہو گی کہ
کیوں یورپ کی غلامی پہ رضا مند ہوا تو
مجھ کو تو گلا تجھ سے ہے یورپ سے نہیں
|