از قلم : مفتی آصف انجم ملی ندوی
۲۰۰۸ ء یا ۲۰۰۹ ء کی بات ہے ، مولانا علی میاں ندوی ؒ فاؤنڈیشن کے ماتحت
جاری دارالافتاء بنام ’’ دار الارشاد و الفتاویٰ ‘‘ میں دو بزرگ آئے ، ایک
ہیرا گولڈ کمپنی کے نمائندہ کی حیثیت سے اور دوسرے بحیثیت مستفتی ، دونوں
حضرات بہ ظاہر یہ معلوم کرنے آئے تھے کہ ’’ ہیرا گولڈ میں سرمایہ لگانا
جائز ہے یا نہیں ؟ ‘‘ انہوں نے اپنے تحریری سوال نامہ ( استفتاء ) کے ساتھ
کمپنی کے طریقۂ کاروبار پر مشتمل ایک پرچہ بھی دیا ، جس میں کمپنی کے کچھ
شرائط و ضوابط مذکور تھے ۔ راقم ِ سطور نے کمپنی کے نمائندہ کی حیثیت سے
آئے ہوئے بزرگ محترم سے زبانی کچھ باتیں دریافت کیں تاکہ اس کمپنی میں
سرمایہ کاری کے متعلق کوئی ٹھوس اور واضح رائے قائم کی جا سکے ، موصوف
محترم بھی اُس وقت چونکہ نئے نئے کمپنی سے جُڑے تھے اِس لئے انہوں نے اپنی
اُس وقت کی معلومات کے مطابق کمپنی کے طریقۂ کار پر کچھ روشنی ڈالی ، جس کے
جواب میں راقم ِ سطور نے زبانی ہی انہیں کچھ ایسی باتیں کہیں جن کو سن کر
کمپنی کے نمائندہ کی حیثیت سے آئے ہوئے بزرگ نے غالبًا یہ اندازہ لگا لیا
کہ اِس دار الافتاء سے ہیرا گولڈ کمپنی میں پیسہ لگانے سے ’’ منع ‘‘ کیا
جائے گا اور اسے ’’ ناجائز ‘‘ کہا جائے گا ۔ چنانچہ وہ دونوں محترم حضرات
دوبارہ دارالافتاء میں نہیں آئے اور نہ ہی اپنے اُس استفتاء کا جواب کسی
اور سے منگوانے کی زحمت کی ۔ اس کے بعد مئی ۲۰۱۳ ء میں روز نامہ ’’ انقلاب
‘‘ ممبئی کے ’’ جمعہ ایڈیشن ‘‘ میں ’’ دین ِ فطرت ‘‘ کے کالم میں مفتی ٔ
مہاراشٹر حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن صاحب فتح پوری مد ظلہ کا ایک فتویٰ
شائع ہوا ، جس میں ہیرا گولڈ کمپنی کا نام تو نہیں لیا گیا تھا لیکن اُس
وقت ہیرا گولڈ جن بنیادوں پر عام مسلمانوں کو کمپنی میں پیسہ لگانے کی
ترغیب دے رہی تھی اور جس طریقہ پر سرمایہ کاروں میں نفع تقسیم کیا جا رہا
تھا ، اُس فتویٰ کی عبارت سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ سوال اسی کمپنی کے
بارے میں کیا گیا ہے اور مفتی صاحب موصوف مد ظلہ نے اُسے ’’ سودی معاملہ ‘‘
قرار دے کر مسلمانوں کو اس سے بچنے کی تأکید فرمائی ہے ، راقم ِ سطور نے
اُس فتویٰ کو مقامی اخبارات میں شائع کروایا تھا اور بہت سے احباب کے
مانگنے پر اس اُس کی کاپیاں بھی دی تھیں ، بعض احباب نے اُسے شہر کی بہت سی
مساجد کی دیواروں پر چسپاں بھی کیا تھا ۔ ۲۰۱۴ ء میں ایک اسکول ٹیچر اور
۲۰۱۵ ء میں ایک انجینئر صاحب نے کافی تفصیل کے ساتھ ہیرا گولڈ کا نام واضح
طور پر لکھ کر اُس کے بارے میں ’’ دار الارشاد و الفتاویٰ ‘‘ سے فتویٰ چاہا
، انہیں صاف الفاظ میں تحریری جواب دیا گیا کہ ہیرا گولڈ کا کاروبار ’’ سود
‘‘ پر مبنی ہے اس لئے اُس میں پیسہ لگانا جائز نہیں ہے ، اس کے بعد غالبًا
۲۰۱۶ ء یا ۲۰۱۷ ء میں اے ٹی ٹی ہائی اسکول کے مولانا آزاد ہال میں ایک
سیمینار منعقد ہوا ، جس میں شہر کے بہت سے تعلیم یافتہ حضرات شریک ہوئے ،
اس پروگرام میں راقم ِ سطور کو لوگوں کے سوالوں کے جواب دینے کی ذمہ داری
سونپی گئی تھی ، راقمِ سطور کو یہ دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی کہ اُس سیمینار کی
پہلی نشستوں پر ہیرا گولڈ کمپنی کا ایک بہت پُر عزم اور قابلِ اعتماد
نمائندہ بھی رونق افروز ہے ، اُس سیمینار کا موضوع خاص طور پر ’’ سود ‘‘ کے
متعلق تھا ، اس لئے سوال کرنے والوں نے موقع غنیمت جان کر ’’ ہیرا گولڈ میں
پیسہ لگانے ‘‘ کے بارے میں بھی سوال کیا ، راقم ِ سطور نے پورے شرح ِ صدر
کے ساتھ اُس کے ’’ سودی معاملہ ‘‘ ہونے اور شرعًا اُس کے ’’ ناجائز ‘‘ ہونے
کا حکم بیان کیا ، توقع تھی کہ اِس جواب کو سن کر ہیرا گولڈ کے محترم
نمائندہ صاحب اعتراض ، احتجاج یا کوئی اشکال اور اُس کے صحیح ہونے کی کوئی
دلیل پیش کریں گے ، لیکن نہایت حیرت کی بات ہے کہ موصوف کی طرف سے کسی بھی
ردِّ عمل کا اظہار نہیں ہوا ، ان سب کے علاوہ راقم ِ سطور نے وقتًا فوقتًا
اخبارات میں اور پمفلٹ کی صورت میں ہیرا گولڈ میں پیسہ لگانے کے متعلق عام
مسلمانوں کو آگاہ کرنے کی بارہا کوششیں کیں ، اس دوران ہمارے ایک عزیز دوست
مفتی جنید پالنپوری صاحب کا ایک مفصّل فتویٰ منظرِ عام پر آیا ، واٹس ایپ
پر بھی خوب پھیلایا گیا ، راقم ِ سطور نے اُس کی پرنٹ نکال کر اُسے شہر کے
تقریبًا بیس مفتیان ِ کرام کی خدمت میں بھیجا ، اُس فتویٰ میں مفتی صاحب
موصوف نے صاف الفاظ میں اس طرح کا مضمون لکھا تھا کہ ’’ ہیرا گولڈ میں پیسہ
لگانا جائز نہیں ہے اس لئے جن لوگوں کا پیسہ اُس میں لگا ہوا ہے وہ اپنے
پیسے نکال لیں اور نئے لوگ اُس میں پیسہ نہ لگائیں ۔ ‘‘ اسی دوران راقم ِ
سطور کو ایک دوست نے ایک پرچہ دیا ، جس پر مفتی حامد ظفر ملی رحمانی صاحب
کا فتویٰ تھا ، یہ صرف جواب کی کاپی تھی ، سوال کی کاپی راقم ِ سطور کو آج
تک نہیں ملی ، اُس جواب کے شروع میں ہی کانٹ چھانٹ کی گئی تھی ، وہ یہ کہ
فتویٰ کا پہلا لفظ ’’ مذکورہ کمپنی ‘‘ کو کاٹ کر اُس کی جگہ ’’ ہیرا گولڈ
کمپنی ‘‘ لکھ دیا گیا تھا ، اُس فتویٰ میں مفتی حامد ظفر صاحب نے اگرچہ
شراکت داری کی بنیاد پر اُس میں پیسہ لگانے کے جائز ہونے کا حکم لکھا ہے
لیکن آخری سطروں میں صاف صاف آگاہ بھی کر دیا ہے کہ ’’ البتہ آئندہ پیش آنے
والے حالات سے بچنے کے لئے مزید چھان بین اچھی طرح سے کر لینی چاہیئے تا کہ
روپیہ ضائع نہ ہو ‘‘ ۔ راقم ِ سطور نے بہت کوشش کی ، مختلف تدبیروں سے ہیرا
گولڈ میں سرمایہ کاری کے متعلق جواز کے فتوے تلاش کرتا رہا ، نیٹ پر
ڈھونڈتا رہا لیکن افسوس کہ آج تک جواز کا ایک بھی فتویٰ کسی نے نہیں دکھایا
، اِس کے باوجود حیرت بلکہ سخت افسوس ہے کہ ہزاروں مسلمانوں نے حرام حلال
کی پرواہ کئے بغیر اس کمپنی میں پیسے لگا دیئے ، اب جب کہ اس کمپنی کی نےّا
ڈوبتی نظر آ رہی ہے تو کچھ لوگ چند مفتیانِ کرام کو نشانہ بنا رہے ہیں ، ان
کو مَورِدِ الزام ٹھہرا رہے ہیں ۔ گستاخی معاف ! قصور مفتیانِ کرام کا ہرگز
نہیں ہے ، راقم ِ سطور آج بھی منتظر ہے ’’ اگر کسی کے پاس ملک کے کسی بھی
معتبر اور تجربہ کار مفتی کا ’’ جواز کا فتویٰ ‘‘ موجود ہو تو براہِ کرم
دکھا دے اور اُس کی فوٹو کاپی دے دے ‘‘ ۔ واقعہ یہ ہے کہ ہم خود ’’ لالچ ‘‘
کا شکار ہو گئے تھے ، ہمیں ’’ خود غرضی ‘‘ نے گھیر رکھا تھا ، مال و دولت
کی محبت نے ہمیں اندھا کر دیا تھا ، ہم نے سنا کہ ’’ ایک لاکھ لگاؤ تو
مہینہ کا تین سے چار ہزار روپیہ نفع ملنے لگتا ہے ‘‘ بس کیا تھا ؟ بنا سوچے
سمجھے سودی کاروبار کے اس دلدل میں گردن تک اترتے چلے گئے ، افسوس ! کتنے
مسلمان بھائیوں اور بہنوں نے اس کاروبار میں پیسہ لگانے سے منع کرنے والے
مفتیان ِ کرام کو برا بھلا کہا ، اُنہیں جاہل اور ناسمجھ کہا ، گالیاں دیں
، ان مفتیانِ کرام کے منع کرنے کے بعد بھی وہ اس سے باز نہیں آئے ۔ آج راقم
ِ سطور اس تفصیل کو پیش کر کے یہ سوال کرنا چاہتا ہے کہ ’’ کیا ان سب
کوششوں کے بعد کسی بھی مسلمان کو یہ کہنے کا حق ہے کہ علماء ِ کرام اور
مفتیانِ عظام مسلمانوں کی رہنمائی نہیں کرتے یا انہیں صحیح مشورہ نہیں دیتے
؟ ‘‘ اگر یہ کہا جائے کہ اس سوال کا جواب یقینًا ’’ نہیں ‘‘ ہے تو کچھ غلط
نہیں ہوگا ۔ |