معماران قوم کے مسائل۔۔

عرفان صادق (تلہ گنگ)

مجھے اپنی ایک ہم منصب کی کال آئی وہ بہت پریشان لگ رہی تھیں میں نے جلد ہی بھانپ لیا اور ان سے ان کی اس کیفیت کی وجہ پوچھی تو گویا ہوئیں کہ سر میں 2014 میں پنجاب سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے منسلک ہوئی اور بطور ایس ایس ای(سینئر سکول ایجوکیٹر) اپنی سروس کا آغاز کیا۔ جلد ہی مجھے اپنے ادارے کا سربراہ بنا دیا گیا جہاں اب تک میں اپنے فرائض مکمل دیانتداری اور محنت سے سرانجام دے رہی ہوں میں نے کہا جی اس میں تو کوئی شک نہیں کہ آپ کا سکول ہماری تحصیل کے بہترین سکولوں میں شمار ہوتا ہے لیکن اس سب میں پریشانی کی بات کیا ہے تو کہنے لگیں سر اصل بات یہ ہے کہ ہمیں جب بھرتی کیا گیا تھا تو ہمیں 5 سالہ کنٹریکٹ پر بھرتی کیا گیا جس کی بابت ہمیں کہا گیا کہ آپ کو آپ کی کارگردگی کی بنیاد پہ جلد ہی مستقل کر دیا جائے گا۔ ہم اسی سبز باغ میں سیر کرتے رہے لیکن مستقلی کا وہ سبز باغ محض ایک خواب ہی تھا جو تا حال شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا اور اب مارچ 2019 میں ہمارا پانچ سالہ کنٹریکٹ ختم ہونے جا رہا ہے اور ہمیں ڈر ہے کہ کنٹریکٹ ختم ہونے پر ہمیں اپنی نوکری سے ہاتھ دھونے پڑیں گے لہذا ہمارا مطالبہ ہے کہ ہمیں فی الفور مستقل کیا جائے تا کہ ہم اپنی تدریسی ذمہ داری کو احسن طریقے سے سرانجام دے سکیں اور آج کل جو بے چینی ہمارے اندر پائی جا رہی ہے وہ ختم ہو سکے۔

اسی طرح ہمارے اپنے رفیقِ کار خرم شہزاد صاحب بھی اپنی جگہ پر پریشان ہیں ان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ عرصہ چھے سال سے اپنے گھر سے 120 کلومیٹر دور تعینات ہیں یعنی ان کا گھر چکوال شہر میں ہے اور وہ تحصیل لاوہ کے گاوٗں چکی شاہ جی میں تدریسی فرائض سرانجام دے رہے ہیں ان کے والد صاحب فالج کے مریض ہیں جن کو سنبھالنے کی ذمہ داری اکلوتا ہونے کی وجہ سے خرم صاحب پر ہی ہے لیکن دور ہونے کی وجہ سے وہ اس باعثِ ثواب دارین عمل جو کہ ایک فریضہ بھی ہے کو سرانجام دینے سے محروم ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے تقریبا 3 سال پہلے 2016 میں تبادلوں پر سے پابندی اٹھائی گئی تھی
جس کا دورانیہ ایک ماہ تھا اس کے بعد گزشتہ حکومت کے آخری ایام میں ٹرانسفر پر سے پابندی ہٹائی گئی اور پنجاب بھر سے لگ بھگ 50 ہزار اساتذہ نے تمام مطلوبہ کاغذات کے ساتھ اپنی درخواستیں جمع کروائیں لیکن اس تبادلے کو الیکشن کمیشن نے کالعدم قرار دے دیا۔ اور الیکشن کے بعد نئی حکومت کے آنے پر اساتذہ کو امید کی کرن تب نظر آئی جب محکمہ تعلیم پنجاب مراد راس صاحب نے اساتذہ کو ٹرانسفر کا کام ایک ماہ میں مکمل کرنے کا عندیہ دیا.لیکن ایک بار پھر ضمنی الیکشن کی آڑمیں اساتذہ کے تبادلوں پر پابندی لگا کر سارے پراسس کو روک دیا گیا۔ پھر ضمنی الیکشن کے بعد بھی اساتذہ کو مسلسل اذیت میں مبتلا رکھا گیا۔اور حکومت وقت نے اساتذہ کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگائے رکھا۔ پھر خدا خدا کر کے کفر ٹوٹا اور پرانی درخواستوں پر عملدرآمد کا مکمل شیڈول دے دیا گیا حتی کہ میرٹ لسٹیں بھی آویزاں کر دی گئی اور ان پر اعتراضات کی تاریخ 9 نومبر بتائی گئی لیکن 9 نومبر کے دن ہی محکمہ تعلیم پنجاب کی طرف سے ایک حکم نامہ جاری ہوا جس میں یہ کہا گیا کہ تا حکم ثانی اساتذہ کو ٹرانسفر کے آرڈر دینے کا عمل روک دیا جائے۔ تو اساتذہ کے درمیان ایک دفعہ پھر مایوسی کی لہر دوڑ گئی اور خرم صاحب سمیت تمام اساتذہ جو اپنے گھر سے دور تعینات ہونے کی وجہ سے کرب میں مبتلا ہیں ان کی امیدوں پر پانی پھر گیا۔ لیکن حکومت کو جلد ہی اپنی غلطی کا احساس ہوا تو پھر وزیر محکمہ تعلیم پنجاب مراد راس صاحب نے وضاحتی بیان جاری کیا کہ اساتذہ کا ٹرانسفر کا عمل شیڈول کے مطابق ہو گا اور کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی لیکن اساتذہ کرام اس وقت تذبذب کا شکار ہیں اور حکومت وقت کے رویے اور عمل سے مایوسی کا اظہار کر رہے ہیں۔

ایسے ہی ہماری ایک کولیگ نے مجھے بتایا کہ میں ایک مردانہ سکول میں تعینات ہوں جہاں مجھے مرد ہیڈ ماسٹر کی طرف سے کئی دفعہ ہراساں کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ کئی خواتین اساتذہ نے اپنے اوپر مسلط مرد افسران کی بابت شکایت کی کہ ان سے دفتری کاموں یا چھٹی کے حصول کے عوض ناجائز مطالبات کیے جاتے ہیں جو کہ سراسر ظلم اور زیادتی ہے۔

یہ تو صرف تین کہانیاں ہیں اس کے علاوہ نہ جانے کتنے اساتذہ ایسے ہیں جو اس سے بھی زیادہ گھمبیر مسائل کا سامنا کر رہے ہیں لیکن خاموش ہیں۔

ایک مشہور مقولہ ہے کہ استاد قوم کا معمار ہوتا ہے۔ آپ غور کریں تو یہ بہت حد تک مبنی بر حقیقت ہے جیسے معمار مختلف الانواع کی چھوٹی بڑی عمارتیں بناتا ہے بعینہ ایسے ہی ایک استاد معاشرے کو مختلف درجات کے ہنرمند افراد مہیا کرتا ہے۔ لیکن ایک معمار اپنا کام تب ہی بہتر طریقے سے کر سکتا ہے جب اس کو کام کے حوالے سے دیگر پریشانیوں سے آزاد کر دیا جائے اور اس کو مکمل ماحول اور سہولیات فراہم کی جائیں تا کہ عمارت بہتر سے بہترین ہو سکے۔۔ معمارانِ قوم اساتذہ ہمارا مستقبل تعمیر کرتے ہیں جب ہم انہیں مذکورہ مسائل اور الجھنوں میں الجھائے رکھین گے تو ہماری مستقبل کی عمارت کیسے مضبوط ہو گی؟

ہم کیسے امید رکھیں کہ یہ اساتذہ اقبال کے شاہین پیدا کریں گے جب ان کو کنجشکِ بے چارہ بنا دیا جائے۔
یہ کبوتر کے تنِ نازک میں شاہیں کا جگر کیسے پیدا کر پائیں گے؟؟ جب ان کے اپنے کلیجے پہ وار کیے جائیں۔۔
اور یہ کیسے یہ طلبہ کو خاکبازی کے بجائے بیکرانہ و نیلگوں آسماں میں پرواز کرنا سکھائیں گے؟؟ جب ان کی اپنی پرواز کو پر کاٹ کر کے محدود کر دیا جائے۔۔

یہ کیسے طلبہ کی کردار سازی کرپائیں جب یہ اپنے کردار کو محفوظ نہ رکھ پائیں۔۔

لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ پیشہِ پیغمبری سے منسلک ان فرشتہ صفت انسانوں کو مزید تنگ نہ کیا جائے اور ان کو ان کے حقوق جلد از جلد فراہم کیے جائیں۔۔
 

KhunaisUr Rehman
About the Author: KhunaisUr Rehman Read More Articles by KhunaisUr Rehman: 33 Articles with 22976 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.