ہر چیز کا کوئی معیار ہوتا ہے اور معیار کے ساتھ اس
کی خرید و فروخت کی کوئی حد مقرر ہوتی ہے تحصیل کلرسیداں میں لاتعداد ہوٹل
اور ریفریشمنٹ سنٹرز قائم ہیں جن پر چیکنگ کا کوئی واضح نظام موجود نہیں ہے
ہوٹلوں پر سرعام غیر معیاری کھانے فروخت ہو رہے ہیں لیکن پوچھنے والا کوئی
بھی نہیں ہے سبزی فروشوں کے پاس جا کر دیکھا جائے تو جب وہ کریٹ صاف کر رہے
ہوتے ہیں اگر ان سے پوچھا جائے کہ ان گندے ٹماٹروں کا کیا کرو گے تو وہ صاف
جواب دیتے ہیں کہ کوئی نہ کوئی ہوٹل والا لے جائے گافوڈ اتھارٹی کی ٹیمیں
تو کبھی کبھار دکھائی دیتی ہیں لیکن ان کا کام صرف وصولیاں کرنا ہے اس کے
علاوہ وہ اگر کسی ہوٹل والے کے خلاف کوئی کاروائی کرتی بھی ہیں تو صرف ان
کے خلاف جس کے پورے میں کلو چاول بھی نہیں بکتے ،اس کے علاوہ انھوں نے آج
تک کسی بڑے ہوٹل کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا ہے وہ صرف چھوٹے اور غریب
دکانداروں کے خلاف کاروائیاں کر رہی ہیں جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بڑے
ہوٹل ان کی پہنچ سے باہر ہیں دوسری سب سے بڑی بات جو کہ زیادتی پر مبنی ہے
ہر چیز کے ریٹ مقرر ہیں سبزی فروٹ اور دیگر گھریلو استعمال کی تمام اشیاء
کی قیمتیں مقرر ہیں لیکن ہوٹلوں اور ریفریشمنٹ سنٹرز پر فروخت ہونیوالی
اشیاء خوردونوش کی کوئی بھی قیمت مقرر نہیں ہے اور نہ ہی آج تک کسی نے اس
جانب کوئی توجہ دی ہے ایک سموسے کی قیمت دس روپے ہے لیکن جب وہی سموسہ پلیٹ
میں ڈال کر لیا جائے توا س کی قیمت 50روپے ہوتی ہے فی پلیٹ کی قیمت ہر ماہ
دو ماہ بعد بڑھا دی جاتی ہے مالکان جب چاہیں قیمتیں بڑھا دیتے ہیں جو کہ
غریب عوام کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہے حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ ہر تحصیل
میں ٹی ایم اے موجود ہین وہ ان تمام چیزوں کے نرخ مقرر کریں اور ان کی
اجازت کے بغیر کوئی بھی دکاندار ایک روپیہ بھی نہ بڑھا سکے لیکن یہاں سب
کچھ بلکل الٹ ہے کسی دکاندار ہوٹل مالک کی کیا جرات ہونی چاہیے کہ وہ کود
اپنی مرضی کے نرخ مقرر کرے اور جب چاہے بڑھ ا لے دوسرا ان ہوٹلوں کے باورچی
خانے اتنے گندے ہوتے ہیں کہ دیکھنے کو جی نہیں چاہتا ہے بلکہ ان کے کچن
دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ یہ کوئی کوڑے کرکٹ کے ڈھیر ہیں کھانے تیار کرنے
والے عملے کی طرف سے کسی قسم کی صفائی کا خیال نہیں رکھا جاتا بعض اوقات
تیارشدہ کھانے میں سے بال اور دیگر اس طرح کی چیزیں برآمد ہوتی ہیں کھانے
تیارکرتے وقت نہایت ہی غیر معیاری تیل کا استعمال کیا جاتا ہے بے حسی کی
انتہا تو یہ کہ بے خوف و خطر کھانے میں خراب سبزیاں مضر صحت گوشت اور غیر
معیاری مصالحہ جات استعمال کیے جاتے ہیں ادھر فوڈ اتھارٹی نے کبھی بھی کوئی
توجہ نہیں دی ہے دوسری طرف سرکاری و نجی سکولوں میں قائم کینٹیں بھی اس
صورتحال میں پیش پیش ہیں فوڈ اتھارٹی کی ٹیم نے کبھی بھی سرکاری سکولوں کا
رخ نہیں کیا ہے اور نہ ہی سکولوں کی انتظامیہ نے اس طرف کوئی دھیان دیا ہے
اس سے سکولوں میں غیر معیاری اور مضر صحت اشیاء مشروب فروخت ہو رہے ہیں
بیشتر کیٹینوں میں صاف ستھرائی کی حالت دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہاں
استعمال ہونے والے برتنوں کو کبھی بھی دھویا نہیں گیا ہے یہ سراسر متعلقہ
محکموں کی غفلت و لاپرواہی ہے اسسٹنٹ کمشنر کلرسیداں کو اس جانب خصوصی توجہ
مرکوز کرنا ہو گی اس سلسلے میں متلعقہ محکموں کو باضابطہ ہدایات جاری کی
جائیں کہ وہ تحصیل میں موجود ہوٹلوں ریفریشمنٹ سنٹرز سرکاری سکولوں میں
قائم کینٹیوں کی باقاعدہ چیکنگ کریں اور وہاں پر موجود اشیاء کا معیار
دیکھیں نیز ہوٹلوں اور ریفریشمنٹ سنٹرز کے لیے کوئی باقاعدہ لسٹیں مقرر
کریں اور من مانے ریٹس مقرر کر کے عوام کو لوٹنے والوں کے خلاف سخت کاروائی
عمل میں لائیں۔ |