میں:گلیلو:سترویں سال کی عمر میں بحثیت ایک قیدی تقدس مآب
کے سامنےدوزانوں ہوتا ہوں اور مقدس انجیل کو اپنے گلے میں لٹکاتا ہوں۔ حرکت
ارض کی غلطی تسلیم کرتا ہوں۔اور الحاد کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہوں اور
اظہار لعنت کرتا ہوں۔
قارئین:»یہ توبہ، دستبرداری اور یہ برملا لعنت کسی اور کی نہیں بلکہ اس
فلکیات دان {گلیلو} کی ہےجس کو قرون وسطی میں چرچ نے زمین کی گردش کا نظریہ
پیش کرنے کی جرم میں سزا دی تھی۔ اور اس تردید کے باوجود اس کی جاں بخشی نہ
کی گئی۔بلکہ مقدس محکمئہ احتساب نے زندگی بھر کے لئے اس کو جلا وطن کر دیا۔
یہ واقعہ اس یورپ میں رونما ہوا تھا۔ جس کو آج تہذیب و تمدن اور جدید علوم
کا علمبردار سمجھا جاتا ہے۔ جس کی مضبوط معیشت، اعلی نظم وضبط، مساوی حقوق
اور امن واماں کیتوآج سب لوگ معترف ہیں۔ لیکن اس سب کے پیچھے ان پر کم وبیش
ایک ہزار سال تاریکی کے بھی گزرے ہیں۔اس زمانے میں ان کے جو حالات اور
زندگی تھی اس سے آج بھی انسایت پناہ مانگتی ہیں۔اس وقت وہ لوگ ہر قسم کی
علمی و تمدنی ترقی سے کوسوں دور تھے۔ جس کی اصل وجہ یہ تھی کہ گرجا کے
پادریوں نے مذہب کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے تھے۔ اور امن، محبت اور نیکی کو
مفقود کر دنیا تھا۔ لوگ اصل مذہب بھول گئے تھے۔ اور فرقہ بندی کی وجہ سے ہر
گروہ دوسرےکے سائے سے بھاگتا تھا۔ ہر گروہ ان فروعی مسائل جن کا زندگی کے
حقائق سے کوئی تعلق نہیں تھا ان مسائل کی موشگافیوں کو مدار ایمان و نجات
سمجھنے لگا تھا پھر ان موشگافیوں میں باہمی اختلافات کی وجہ سے شدید قسم کی
ہنگامہ آرائی ہوتی اور کشت و خون تک نوبت پہنچتی اسی تاریکی کے دور میں
اکثر وہ توہمات جو رومن چرچ کے لئے باعث ننگ تھے مذہبی صورت میں قائم کئے
گئے تھے۔ اور جن شہروں میں زاہدوں اور راہبوں کی تعداد جتنی زیادہ ہوتی
اتنی ہی بدکاری اور عیش پرستی عروج پر ہوتی تھی۔مذہب دنیا طلبی اور ہوس
رانی کا ذریعہ بن گیا تھا۔ محنت اور کام سے بچنے کے لئے لوگ مذہبی زندگی
اختیار کرنے لگے تھے۔ اور گیارہویں اور بارہویں صدی عیسوی میں مغربی یورپ
میں تقریبا نصف جاگیردار چرچ کے نمائندے تھے۔ اور جب جاگیرداری ٹلنے لگی تو
چرچ کے پادریوں نے اب سرمایہ داروں کے سات ملکر انسایت کی تذلیل کا سلسلہ
جاری رکھا۔ جس کی وجہ سے ہر قسم کی علمی و تمدنی ترقی رکی ہوئی تھی۔ اور جن
لوگوں نے علم وفن کی ترقی میں حصہ لیا تھا انہیں نہ صرف یہ کہ مذہبکے
بارگاہ سے ملعون و مردودقرار دیا گیا تھا بلکہ سخت سے سخت سزاؤں میں مبتلا
کیا گیا تھا۔ جس کی ایک مثال وہ گلیلو کی داستان تھی جو آپ پڑھ چکے ہیں۔
اور دوسرا "وینی نی" جو مسلۂ ارتقاء پر ایمان رکھتا تھا۔ اس کی زبان کاٹ لی
گئی اور زندہ آگ میں جھونک دیا گیا۔ "کوپرنیکس" جس نے بھی زمین کی گردش اور
آسمان کا ساکت ہونا ثابت کرنے کی کوشش کی تو اس کونوخیز منجم کاخطاب ملا
اور بلآخر ذلت و خواری کے ساتھ اس کا بھی خاتمہ ہوا۔ اور "برونو" جو
کوپرنیکسکے نظریہ کی حمایت کرتا تھا اس کو گرفتار کر کے سات سال قید میں
رکھا اور پھر دھیمی آگ میں ڈال کر موت کا مزا چکھایا گیا۔
تو قارئین یہ ہیں اس موجودہ جدید یورپ کا قدیم چہرہ۔ اب سوال یہ ہیں وہ
کونسا کرشمہ تھا کہ جس نے اس ظلم و بربریت کے نمونے "یورپ" کو تہذیب اور
علمی ترقی کی راہ پر گامزن کیا۔اگر میں کہو کہ یہ علمی ترقی بڑی حد تک
مسلمانوں اور اسلامی تعلیمات کی مرہون منت ہے۔ تو شاید بہت کم لوگ یقین
کرینگے۔ اسی لئے میں دلیل کے طور پر ان مغربی محققین کی چند عبارات پیش
کرتا ہوں جس میں خود انہوں نے اس کا اعتراف کیا ہے۔
جیسا کہ "جان ڈیون پورٹ" نے لکھا ہے "کہ تمام علوم مثلا طبعی، نجوم، فلسفہ
اورریاضی وغیرہ جو چودھویں صدی عیسوی سے یورپ میں رائج ہوئے وہ سب کے سب
عربی مدارس سے ماخوذ ہیں اس بناء پر ہسپانیہ کو یورپی فلسفہ کا موجد تسلیم
کرنا چاہیے۔
"رینان" نے لکھا ہے۔ عیسائی،یہودی اور مسلمان سب ایک ہی زبان بولتے تھے۔
ایک ہی نغمہ گاتے تھے۔ اور ایک ہی ادبی و سائنٹفیک مسند درس کے حاشیہ نشین
تھے۔"قرطبہ"جس کی مسجدیں جن میں ہزاروں کی تعداد میں طلبہ رہتے تھے وہ اس
علم و حکمت کا مرکز بن گئی تھی۔
اور "گیسٹورکس" جس نے صراحتہ اعتراف کیا ہے۔ کہ یورپ سائنٹفیک انکشافات میں
اسلام کا ممنون ہیں۔ اسلام ہی کے طفیل علمائے سائینس "بیکن" اور "نیوٹن"
وغیرہ پیدا ہوئے۔ اگر مسلمانوں نے کاغذ، بارود، قطب نما ( کومپاس)اور دیگر
آلات ترقی کو رواج نہ دیا ہوتا تو یورپ کی سائینس اور تہذیب کی چودہ سو برس
پہلے جو حالت تھی وہ آج بھی ہوتی۔
قارئین اگر "قرطبہ" کی درسگاہوں میں عیسائی، یہودی، اور مسلمان ایک ہی زبان
بول سکتے ہیں اور ایک ہی نغمہ گا سکتے ہیں اور سب متفق ہو کر مشترکہ تمدن
اور جدید علوم کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔
تو آج مسلم دنیا میں شیعہ،سنی،دیوبندی،بریلوی، اور اہل حدیث، وغیرہ سب امن
کی قیام کے لئے ایک کیوں نہیں ہو سکتے۔ آج پوری دنیا میں کہیں پر یا تو
مسلمان ایک دوسرے کو قتل کر رہے ہیں اور یا مغربی قوتیں ملکر مسلمانوں کو
صفحئہ ہستی سے مٹانے میں برسریپیکار ہیں۔ اور مسلمانوں کی یہ بے بسی کیا
اسلامی تعلیمات کی غلط تشریح کا نتیجہ تو نہیں؟ کیونکہ ایسا تو نہیں ہو
سکتا کہ اسلام اہل یورپ کے لئے تاریکی سے نجات کا ذریعہ بنے۔ اور خود
مسلمانوں کے لئے جو اسلام کا دعوی بھی کرتے ہو اس پرفتن اور تاریکی کے دور
سے نکالنے میں بے بس ہو۔
|